حمد باری تعالیٰ ﷻ | I |
نعت رسول مقبولﷺ | II |
منقبت نذرِ حضرت علیؓ | III |
قطعہء تاریخِ اشاعت ۔۔ از قمر ؔ وارثی | IV |
غزلیات |
اپنےجواں سال بیٹے سیّد محمّد دانش مرحوم و مغفور کی یاد میں | 1 |
علاجِ ظلمتِ شب کچھ تو اب کیا جائے | 2 |
جو دیدہ ور ہیں وہ سمتِ نظر پہچانتے ہیں | 3 |
ہمارے دستِ طلب میں کوئی سوال کہاں | 4 |
بہت مشکل یہ اندازہ لگانا ہوگیا ہے | 5 |
نئے رستوں پہ ہے منزل پرانی، دیکھ لینا | 6 |
خود ہی آجائے گا دنیا سے بغاوت کرنا | 7 |
مٹا کے خود کو پگھلنا تجھے سکھادوں گا | 8 |
سخن وری کا یہ جو کچھ کمال میرا ہے | 9 |
غلط ہے اس کا مقدر ہوا کے ہاتھ میں ہے | 10 |
میں چاہتا ہوں تجھے شہر سے نہاں رکھوں | 11 |
دیئے جلاؤ نہ بیکار تیرگی کےلیے | 12 |
کچھ ایسا اٹھا ہے مجھ سے مری نظر کا یقیں | 13 |
یہی سچ ہے سو کہہ دینے کی ہمّت ہوگئی ہے | 14 |
صرف اس بات پہ حیراں ہیں تمہاری آنکھیں | 15 |
اگر یہ سچ ہے کہ شوقِ وصال رہتا ہے | 16 |
بھلانے کے لیے تجھ کو، سہارا چاہتا ہوں | 17 |
اک ذرا اعتبار کرلینا | 18 |
میں خونِ دل سے کہوں گا کہ اب خدا کے لیے | 19 |
یہی نہیں کہ فقط لطفِ زندگی کم ہے | 20 |
کون کہتا ہے کہ دے دو، رہِ منزل مجھ کو | 21 |
فغاں میں اپنی کوئی نغمہء طرب بھی نہیں | 22 |
غلط کہ دخل غزل میں مرے کمال کا ہے | 23 |
جب گلستاں میں یار تو ہی نہیں | 24 |
عجب خزانہء نایاب میری ذات میں ہے | 25 |
دریچہ کوئی ہوا کا ہمارے گھر میں کہاں | 26 |
یہ کس نےکہہ دیا تم سے عذاب زندگی ہے | 27 |
یہی نتیجہ نکلنا تھا انتظار کے بعد | 28 |
احباب سے ملی مجھے ایسی دعا کہ بس | 29 |
جو اپنی ذات محبّت پہ وار دیتے ہیں | 30 |
ظلم سے برسرِ پیکار تو رہنے دیتے | 31 |
کوئی بھی لفظ جہاں رکھ، بہت سنبھال کے رکھ | 32 |
تمام اہلِ خِرَد یہ کمال کردیں گے | 33 |
نشاں توڈھونڈے سبھی نے، مگر ملےہی نہیں | 34 |
یاں تو جان پر بنی سی لگتی ہے | 35 |
یہ سوچتا ہوں کہ تازہ کوئی غزل کہہ دوں | 36 |
کارواں کو رہبروں سے بدگُماں رکھا گیا | 37 |
بہت ڈرتا ہوں فطرت پر غزل کیسے کہوں میں | 38 |
حیات گو کہ غریبی میں بار گزری ہے | 39 |
کون سا لمحہ تھا جب وہ راحتِ جاں ہوگئے | 40 |
مرے اشعار کچھ شیریں بھی ہیں، تلخی رساں بھی | 41 |
یہ ٹمٹماتی ہوئی روشنی دیے کی ہے | 42 |
جس سے بچھڑے ہوئے زمانہ ہوا | 43 |
وہ نہ گر بددعا کرے کوئی | 44 |
اب اس سے ملتے رہنا، ہیں تو رسوائی کی باتیں | 45 |
ہمارا دکھ کوئی سمجھے، سوال ہی کم ہے | 46 |
ان کا کہنا ہے کہ حالِ دل بیاں کچھ بھی نہیں | 47 |
جب مری نظروں سے اوجھل یہ جہاں ہوجائے گا | 48 |
مری آنکھوں میں وہ تیرے ستارےآج بھی ہیں | 49 |
قصّہ نہ پوچھا جائے جو تعبیرِ خواب کا | 50 |
نہ جانے کب چلے جائیں یہاں سے | 51 |
زمیں سورگ نہ ہوجاتی پھر سبھی کے لیے | 52 |
وہ چاہتا ہے کہ ہر شکل میں نباہ کروں | 53 |
تجھے بھُلانے کا جاناں اب احتمال کہاں | 54 |
غمِ فُرقت کی سچّائی جہاں رکھا کروں گا | 55 |
عنوان کے پہلو سے تو گمنام نہیں ہے | 56 |
چھُپانا چاہیے جو بات وہ بتاؤ نہیں | 57 |
کہا یہ کس نےملن کا اصول کچھ بھی نہیں | 58 |
ہمارا زخمِ دل اب تو بہت کم ہوگیا ہے | 59 |
سماں جمود کا جانے یہ کب بدل جائے | 60 |
موت برحق ہے، تو درماں کیا کریں | 61 |
مجھے خوشی ہے زمانے کو یہ بتانے میں | 62 |
وہ میرے ساتھ بہت دور تک گیا بھی نہیں | 63 |
دعا کوئی بھی میری پُر اثر ہوتی کہاں ہے | 64 |
ہے ارفع و اعلیٰ وہی انسان کی صورت | 65 |
خشک ہے حلق مرا، خالی ہے ساغر کہہ دوں | 66 |
تمہارے درد و الم دل میں جب بسا کے چلے | 67 |
دشمنیِ کیسے ہو ثابت کوئی میخانہِ سے | 68 |
اس کی تصویر کو سینہِ سے لگائے رکھنا | 69 |
سکونِ ساحل دریا مرے اندر نہیں ہے | 70 |
سکوتِ دشت و صحرا جیسا منظر کردیا دل کو | 71 |
آئینے پریشاں ہیں، یہ کیا دیکھ رہا ہوں | 72 |
ہریادِ وفا جوڑ کے زنجیر کروں گا | 73 |
عشق سودوزیاں نہ رہ جائے | 74 |
دل تو بے اختیار تھا، کیا کیا | 75 |
کیا خوب بے حساب تھا، اچھا لگا مجھے | 76 |
خواہشِ دیدِ یار کیا کرتے | 77 |
تمہارا درد اگر میرے آس پاس رہے | 78 |
مجھ کو اک پیماں وفا کا چاہیے | 79 |
بس ایک آرزو دل سے لگائے پھرتا ہوں | 80 |
| |
No comments:
Post a Comment