اس کی تصویر کو سینہِ سے لگائے رکھنا ہِجَر میں وصل کا ماحول بنائے رکھنا |
|
اپنی آنکھوں میں کہیں چند خوشی کے آنسو اے مرے دوست مرے نام بچائے رکھنا |
|
عمر لمبی ہے بہت ظلمتِ شب کی لیکن شمعِ اُمّیدِ سحر پھر بھی جلائے رکھنا |
|
زندہ رکھنا ہے اگر خواہشِ تعبیر کوئی آتشِ خواب تو لازم ہے جگائے رکھنا |
|
مان ہی لے گا زمانہ تمہیں اہلِ دانش اپنے سر پر یونہی دستار سجائے رکھنا |
|
چشمِ گریہ سے بس اتنی سی گزارش ہے مری رُو بہ رُو ان کے غمِ زیست چھپائے رکھنا |
|
شہرِ دل ساری تمنّاؤں سے خالی کرکے کیا ضروری ہے کوئی درد بسائے رکھنا |
|
ہِجَر کی دھوپ کا احساس نہ جائے جب تک سائباں زلف کا تم اپنی بنائے رکھنا |
|
تم اگر مجھ سے عداوت پہ مُصِر ہو تو چلو مجھ کو آتا ہے یہ رشتہ بھی نبھائے رکھنا |
|
ہے مُحبّت تو کبھی یار مرا دل بھی رکھو یہ بھی کیا بات ہوئی صرف ستائے رکھنا |
|
گھر کا رستہ اسے معلوم ہے اشعؔر لیکن اک دیا بام پہ تم پھر بھی جلائے رکھنا |
|
کلیات منیف اشعر - رختِ زندگی میں خوش آمدید
Sunday, May 3, 2009
اس کی تصویر کو سینہِ سے لگائے رکھنا
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment