ندرتِ خیال اس انتخاب کے عمومی یونی کوڈ نسخ رسم الخط کے لیے یہاں کلک کریں [منتخب اشعار] رختِ زندگی |
|
|
بہت زیادہ نہ ہو رَختِ زندگی اشعر |
بس اِتنا رکھئیے کہ دنیا لگے سرائے میاں |
تمازت دھوپ کی جھیلی تو یہ فن مل گیا ہے |
جو کل سایہ نہ دے گا وہ شجر پہچانتے ہیں |
|
اس کی آہٹ پہ یوں ہوا محسوس |
دل کو چھو جائے جیسے پروائی |
|
میں تو مر کے مٹ ہی جاتا پر خُدا کا شکر ہے |
شاعری کے رُوپ میں نقشِ قلم رہ جائے گا |
|
عطا جو صبر کردیتا ہے دُکھ دینے سے پہلے |
وُہی رحمٰن اے اشعر تمہارا بھی خُدا ہے |
|
جمالِ یار کہاں نسبتِ جمال کہاں؟ |
ہمارا وہ مہ کامل کہاں ہلال کہاں؟ |
|
اُترنا دل میں جو آتا نہیں تو پھر خود کو |
کسی کی آنکھوں کے گرداب میں ڈُبونا کیا |
|
میرا وجود آپ کے پہلو میں جس طرح |
اک پیالہ، شراب تھا اچھا لگا مجھے |
|
ہجر کی دھوپ کا احساس نہ جائے جب تک |
سائباں زُلف کا تم اپنی بنائے رکھنا |
|
شبِ ظُلمَت کی دھندلائی سحر کافی نہیں ہے |
نہ ہو جس میں بصارت وہ نظر کافی نہیں ہے |
|
وہی جو صاحبِ معراج ہیں خیرالبشر ہیں |
انھیں کے نقشِ پا ہیں میری منزل کے نشاں بھی |
|
نشہ ہی اور تھا جاناں جو تیری آنکھ میں تھا |
پھر اس کے بعد وہ لطف شراب آ نہ سکا |
|
جنھیں رکھتا ہے باطن بے سکوں دن رات اشعر |
وہی محصور دنیا بے ضمیری چاہتے ہیں |
|
یوں مری پلکوں سے ٹکراتی ہیں موجیں شب بھر |
اک سمندر کہیں آنکھوں میں رواں ہو جیسے |
|
مُجھے پتا ہے وہ ہرجائی ہے مگر اشعر |
وفا کے قحط میں اک یارِ بے وفا ہی سہی |
|
ہمارے دستِ طلب میں کوئی سوال کہاں |
انا پرستی کی اس سے بڑی مثال کہاں |
|
شعر کہنے کا ہنر تم کو بھی شاید مل جائے |
خُونِ دل میں انگلیاں اپنی ڈُبو کر دیکھ لو |
|
جدھر بھی جاتا ہوں سب پوچھتے ہیں نام ترا |
میں تیرے شہر میں کس کس کو راز داں کرلوں |
|
تیری تصویر میں تھوڑی سی کمی باقی ہے |
تو بتا رنگِ وفا اس میں بھروں یا نہ بھروں |
|
میں بجُھ گیا ہوں مگر اور سب تو روشن ہیں |
کسی دیئے کو تو بجُھنا ہی تھا ہوا کے لیے |
|
ہاں اے فلکِ پیر، جواں تھا ابھی دانش |
کیا تیرا بگڑتا جو نہ مرتا کوئی دن اور |
|
شورِ سگاں ہمیشہ سے مصروف کار ہے |
رکتا ہے بھونکنے سے مگر کارواں کہاں |
|
اب اس سے بڑھ کر کس کو ملے گی تونگری |
قسمت میں جس کی دولتِ رزقِ حلال ہے |
|
تو اک مُدّت سے اپنوں کی طرح ہے ساتھ لیکن |
غمِ فرُقت! اب میں تجھ سے رہائی چاہتا ہوں |
|
کسی کا دل مری باتوں سے ٹوٹ جائے کبھی |
مرے سُخن میں یہ حُسنِ کمال ہی کم ہے |
|
بس اک یہی تو شکایت رہی ہے ان کو سدا |
کہ آئینوں میں ہمارے جمال ہی کم ہے |
|
یہ کہہ تو دیں کہ سُخن مستند ہے اپنا مگر |
ہمارے ذہن میں ایسا وبال ہی کم ہے |
|
چمن میں اب قفس کی کیا ضرورت |
جسے بھی دیکھیے بے بال و پر ہے |
|
گُزر کے آگیا دریا سے اور پیاسا ہوں |
کہاں تھا میرا تعارف سراب سے پہلے |
|
دیا ہوں میں، بجُھا دو یا مجُھے تسلیم کرلو |
ہوائو! تم مرے چاروں طرف ہو جانتا ہوں |
|
سمجھتا ہے کوئی مُخلص مجھے کوئی منافق |
اُتر آتا ہے سب کا عکس مجھ میں آئینہ ہوں |
|
پھر کیسے نہ رکھ دیتا مرے ہاتھ پہ قیمت |
بے لوث محبّت کا وہ قائل ہی نہیں تھا |
|
لکھتا رہا قصیدے جو حاکم کی شان میں |
دورِ جدید کا وہ قلمکار ہو گیا |
|
|
دل میں جو آئینے کی طرح معتبر رہا |
وہ شخص بھی سُنا ہے اداکار ہوگیا |
|
اُسے تو ہم نے کئی زاویوں سے دیکھا ہے |
وہ بے مثال سا کچھ خدوخال ہی میں نہیں |
|
اپنا ہر عکس نئے رنگ میں دیتا ہے ہمیں |
اور ہم سے وہی تصویر پُرانی مانگے |
|
خود ہی آجائیگا دنیا سے بغاوت کرنا |
پہلے تم سیکھ تو لو ہم سے محبّت کرنا |
|
گُریزاں اس سے رہنا اجتنابِ زندگی ہے |
مُحبّت جس کو کہتے ہیں نصابِ زندگی ہے |
|
کیسے کہوں کہ تم سے محبّت نہیں رہی |
کیا مجھ کو زندگی کی ضرورت نہیں رہی |
|
کوئی بھی لفظ جہاں رکھ بہت سنبھال کے رکھ |
تاءثّراتِ سُخن میں نئے خیال کے رکھ |
|
قافیہ بندی کا فن ہی تو نہیں ہے شاعری |
شعر میں فکرونظر بھی شاعرانہ چاہیے |
|
استعاروں کا کیا کروں اشعر |
وہ نہیں جائیں گے معانی تک |
|
کوئی نہ باندھنا تمہید جب بھی سچ لکھو |
ہے پیش لفظ، مُلمّع کتاب سے پہلے |
کلیات منیف اشعر - رختِ زندگی میں خوش آمدید
Thursday, April 16, 2009
Poetic Excellence ندرت خیال - نستعلیق رسم الخط ۔۔
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment