Justuju Tv جستجو ٹی وی


کلیات منیف اشعر - رختِ زندگی میں خوش آمدید

Thursday, April 16, 2009

Poetic Excellence ندرت خیال - نستعلیق رسم الخط ۔۔



ندرتِ خیال

اس انتخاب کے عمومی یونی کوڈ نسخ رسم الخط کے لیے یہاں کلک کریں

[منتخب اشعار]

رختِ زندگی




بہت زیادہ نہ ہو رَختِ زندگی اشعر

بس اِتنا رکھئیے کہ دنیا لگے سرائے میاں



تمازت دھوپ کی جھیلی تو یہ فن مل گیا ہے

جو کل سایہ نہ دے گا وہ شجر پہچانتے ہیں



اس کی آہٹ پہ یوں ہوا محسوس

دل کو چھو جائے جیسے پروائی



میں تو مر کے مٹ ہی جاتا پر خُدا کا شکر ہے

شاعری کے رُوپ میں نقشِ قلم رہ جائے گا



عطا جو صبر کردیتا ہے دُکھ دینے سے پہلے

وُہی رحمٰن اے اشعر تمہارا بھی خُدا ہے



جمالِ یار کہاں نسبتِ جمال کہاں؟

ہمارا وہ مہ کامل کہاں ہلال کہاں؟



اُترنا دل میں جو آتا نہیں تو پھر خود کو

کسی کی آنکھوں کے گرداب میں ڈُبونا کیا



میرا وجود آپ کے پہلو میں جس طرح

اک پیالہ، شراب تھا اچھا لگا مجھے



ہجر کی دھوپ کا احساس نہ جائے جب تک

سائباں زُلف کا تم اپنی بنائے رکھنا



شبِ ظُلمَت کی دھندلائی سحر کافی نہیں ہے

نہ ہو جس میں بصارت وہ نظر کافی نہیں ہے



وہی جو صاحبِ معراج ہیں خیرالبشر ہیں

انھیں کے نقشِ پا ہیں میری منزل کے نشاں بھی



نشہ ہی اور تھا جاناں جو تیری آنکھ میں تھا

پھر اس کے بعد وہ لطف شراب آ نہ سکا



جنھیں رکھتا ہے باطن بے سکوں دن رات اشعر

وہی محصور دنیا بے ضمیری چاہتے ہیں



یوں مری پلکوں سے ٹکراتی ہیں موجیں شب بھر

اک سمندر کہیں آنکھوں میں رواں ہو جیسے



مُجھے پتا ہے وہ ہرجائی ہے مگر اشعر

وفا کے قحط میں اک یارِ بے وفا ہی سہی



ہمارے دستِ طلب میں کوئی سوال کہاں

انا پرستی کی اس سے بڑی مثال کہاں



شعر کہنے کا ہنر تم کو بھی شاید مل جائے

خُونِ دل میں انگلیاں اپنی ڈُبو کر دیکھ لو



جدھر بھی جاتا ہوں سب پوچھتے ہیں نام ترا

میں تیرے شہر میں کس کس کو راز داں کرلوں



تیری تصویر میں تھوڑی سی کمی باقی ہے

تو بتا رنگِ وفا اس میں بھروں یا نہ بھروں



میں بجُھ گیا ہوں مگر اور سب تو روشن ہیں

کسی دیئے کو تو بجُھنا ہی تھا ہوا کے لیے



ہاں اے فلکِ پیر، جواں تھا ابھی دانش

کیا تیرا بگڑتا جو نہ مرتا کوئی دن اور



شورِ سگاں ہمیشہ سے مصروف کار ہے

رکتا ہے بھونکنے سے مگر کارواں کہاں



اب اس سے بڑھ کر کس کو ملے گی تونگری

قسمت میں جس کی دولتِ رزقِ حلال ہے



تو اک مُدّت سے اپنوں کی طرح ہے ساتھ لیکن

غمِ فرُقتاب میں تجھ سے رہائی چاہتا ہوں



کسی کا دل مری باتوں سے ٹوٹ جائے کبھی

مرے سُخن میں یہ حُسنِ کمال ہی کم ہے



بس اک یہی تو شکایت رہی ہے ان کو سدا

کہ آئینوں میں ہمارے جمال ہی کم ہے



یہ کہہ تو دیں کہ سُخن مستند ہے اپنا مگر

ہمارے ذہن میں ایسا وبال ہی کم ہے



چمن میں اب قفس کی کیا ضرورت

جسے بھی دیکھیے بے بال و پر ہے



گُزر کے آگیا دریا سے اور پیاسا ہوں

کہاں تھا میرا تعارف سراب سے پہلے



دیا ہوں میں، بجُھا دو یا مجُھے تسلیم کرلو

ہوائوتم مرے چاروں طرف ہو جانتا ہوں



سمجھتا ہے کوئی مُخلص مجھے کوئی منافق

اُتر آتا ہے سب کا عکس مجھ میں آئینہ ہوں



پھر کیسے نہ رکھ دیتا مرے ہاتھ پہ قیمت

بے لوث محبّت کا وہ قائل ہی نہیں تھا



لکھتا رہا قصیدے جو حاکم کی شان میں

دورِ جدید کا وہ قلمکار ہو گیا




دل میں جو آئینے کی طرح معتبر رہا

وہ شخص بھی سُنا ہے اداکار ہوگیا



اُسے تو ہم نے کئی زاویوں سے دیکھا ہے

وہ بے مثال سا کچھ خدوخال ہی میں نہیں



اپنا ہر عکس نئے رنگ میں دیتا ہے ہمیں

اور ہم سے وہی تصویر پُرانی مانگے



خود ہی آجائیگا دنیا سے بغاوت کرنا

پہلے تم سیکھ تو لو ہم سے محبّت کرنا



گُریزاں اس سے رہنا اجتنابِ زندگی ہے

مُحبّت جس کو کہتے ہیں نصابِ زندگی ہے



کیسے کہوں کہ تم سے محبّت نہیں رہی

کیا مجھ کو زندگی کی ضرورت نہیں رہی



کوئی بھی لفظ جہاں رکھ بہت سنبھال کے رکھ

تاءثّراتِ سُخن میں نئے خیال کے رکھ



قافیہ بندی کا فن ہی تو نہیں ہے شاعری

شعر میں فکرونظر بھی شاعرانہ چاہیے



استعاروں کا کیا کروں اشعر

وہ نہیں جائیں گے معانی تک



کوئی نہ باندھنا تمہید جب بھی سچ لکھو

ہے پیش لفظ، مُلمّع کتاب سے پہلے




No comments:

Design & Content Managers

Design & Content Managers
Click for More Justuju Projects