Justuju Tv جستجو ٹی وی


کلیات منیف اشعر - رختِ زندگی میں خوش آمدید

Sunday, April 12, 2009

سلام و کلام ۔۔ عرض مصنّف



سلام  و کلام

عرضِ مُصنّف





میری پیدائش 2 اگست 1945ء یا 4 نومبر 1946ء، اس وقت کے ہندوستان، موجودہ بھارت، کے ایک اہم ثقافتی اور ادبی مرکز لکھنئو میں ہوئی۔ لیکن چونکہ آباءواجداد کا تعلّق لکھنئو کےضلع ملیح آباد سے تھا، اس لیے میں اپنے تئیں ملیح آبادی کہنا اور کہلوانا باعثِ افتخار و انبساط سمجھتا ہوں۔


ہم لوگ جنوری 1951ء میں جب بھارت سے ہجرت کرکے پاکستان پہنچے، میری عمر پانچ یا چھ سال تھی۔ مُجھے یاد ہے کہ پاکستان میں ہی میری تعلیم کی ابتداء ہوئی، اور پاکستان میں ہی میری عملی زندگی کا آغاز ہوا۔


میں 1977ء سے 1992ء تک سعودی عرب کے شہر ریاض میں رہا۔ اور 1992ء سے تا حال کینیڈا کے شہر ٹورونٹو میں مقیم ہوں۔


لیکن، اس حقیقت کا اعتراف میں اپنی پہلی کتاب” تلخ و شیریں” میں کرچکا ہوں، اور اب بھی یہی کہنا چاہتا ہوں کہ میرا اصل وطن پہلے بھی پاکستان تھا، اور آج بھی میری پہچان میرے وطنِ عزیز پاکستان سے ہی ہے۔ اس لیے کہ پاکستان نے ہی مُجھے علم کی روشنی عطا کی۔ اور عملی زندگی میں بھی پاکستان ہی نے مجھے اس لائق بنایا کہ میں اپنے گھر اور اپنے ماحول سے سات سمندر دور رہ کر بھی عزّت و احترام کی زندگی گزار سکوں۔ 


میری پہچان میرے وطنِ عزیز پاکستان سے ہی ہے۔


میرے وہ قرابت دار اور اہلِ خاندان جو بوجوہ ء ِ صعوبت ہجرت قبول نہ کرسکے تھے، آج بھی بھارت میں مقیم ہیں۔ ان میں سے کچھ لوگ زندگی گزار رہے ہیں، لیکن اکثر کو زندگی گُزار رہی ہے۔ ایسے رشتہِ داروں اور احباب پر جب قریب سے نظر پڑتی ہے تو ایک طرف تو دل خون کے آنسو روتا ہے، اور دوسری طرف اپنے طرزِ زندگی کو دیکھ کر احساسِ شکر گُزاری سے آنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔ جب کبھی یہ سوچتے ہیں کہ وطنِ عزیز پاکستان نے ہمیں کیا کچھ نہ دیا، اور پاکستان کو ہم نے کیا دیا، تو اس حساب کے جمع تفریق کے بعد اگر کچھ ہاتھ آتا ہے تو بس ایک احساسِ ندامت، اور کچھ بھی نہیں۔


کہا جاتا ہے کہ ہر کامیاب شخص کے پیچھے کسی سمجھدار عورت کا دستِ کامران کارفرما ہوتا ہے۔ مجھے صدقِ دل سے یہ اعتراف ہے کہ میری تمام تر کامیابیوں اور میرے بچّوں اور بچّیوں کے اعلیٰ کردار کی تخلیق میں میری شریکِ حیات ثروت کا ایثار و تربیت اظہرمن الشمس ہے۔ میری آج تک کی شاعری کے مختلف النّوع رجحانات اور موضوعات میں بھی مجھے اکثر و بیشتر اپنی شریکِ حیات ہی کبھی عیاں اور کبھی نہاں نظر آتی ہیں۔


میں نے یہ محسوس کیا کہ انسان کی زندگی میں اس کا نام خاصی حد تک اثر پذیر رہتا ہے۔ میں اشعر تخلُّص کرتا ہوں۔ اشعر کے لفظی معنی ہیں “زیادہ شعر کہنے والا”۔ یعنی پُرگو شاعر، جیسا کہ محترم مُحسن بھوپالی نے اس کتاب کے دیباچہ میں ذکر فرمایا ہے، شاید یہ میرے تخلّص کی اثرپذیری ہی ہے کہ پچھلے پچّیس، تیس سال کے دوران مُجھے نہیں یاد پڑتا کہ میں نے کسی مشاعرہ میں تازہ غزل سے آغاز نہ کیا ہو۔


میری اکثر غزلیں طویل مکالمہ کی شکل اختیار کرجاتی ہیں۔ زیرِ نظر مجموعہء غزلیات “رختِ زندگی” میں ہر غزل کے لیے دو صفحات مختص کیے گئے ہیں، لہٰذا تمام طویل غزلوں کو طباعت کی خاطر مختصر کردیا گیا، تاکہ آپ کو ایک مُختصر وقت میں بھی پڑھنے کا لطف حاصل ہوجائے۔ جہاں تک میرے اب تک غیر مطبوعہ کلام کا تعلّق ہے، تو جستجو میڈیا، کراچی، کی یہ تجویز ہے کہ اب میرا تمام کلام، مرحلہ وار ، ملٹی میڈیا ویب کتاب کی شکل میں انٹرںیٹ پر شائع کردیا جائے۔ اس لیے ہوسکتا ہے کہ مستقبل میں آپ کی خدمت میں بقیہ کلام بھی پیش کردیا جائے۔


فی الوقت میرے دوسرے مجموعہ ء کلام، “رختِ زندگی” سے ایک انتخاب آپ کے سامنے موجود ہے۔


میری پہلی کتاب “تلخ و شیریں” پر تبصرہ نگاروں میں شامل تھے: ۔۔


محُسن بھوپالی صاحب، ڈاکٹر فرمان فتح پوری صاحب، مشفق خواجہ صاحب، ڈاکٹر فہیم اعظمی صاحب، راغب مراد آبادی صاحب، اور پروفیسر سحر انصاری صاحب۔ لیکن افسوس کہ اب محترم مشفق خواجہ، اور ڈاکٹر فہیم اعظمی صاحب ہمارے درمیان موجود نہیں۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور ان کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔ آمین۔


آپ کے زیرِ نظر مجموعہ ء کلام “رختِ زندگی” پر جن اصحابِ نظر اساتذہ کی آراء شامل ہیں، میں ان حضرات ِ گرامی قدر کا تہہ دل سے مشکور و ممنون ہوں، جنہوں نے اپنی نہایت مصروف زندگی کا کچھ بیش قیمت وقت “رختِ زندگی” کی تخلیقات کے مطالعہ اور تبصرہ کی نذر کیا۔


ان حضرات محترم میں شامل ہیں:۔۔


ڈاکٹر فرمان فتح پوری صاحب، جناب محسن بھوپالی، پروفیسر سحر انصاری صاحب، پروفیسر آفاق صدّیقی صاحب، اور جناب جاذب قریشی۔


ان حضرات کی تجزیاتی آراء یقیناً “ رختِ زندگی “ کو پُرکشش اور لائقِ مطالعہ بنانے میں مُمِد و مَعاوِن ثابت ہوں گی۔


میں جو کچھ کہنا چاہتا ہوں اپنے اشعار میں، میری کوشش ہوتی ہے کہ صنعتِ لفظی، مشکل پسندی، مُبہم استعاروں، اور لایعنی علامتوں سے گُریز کیا جائے، تاکہ قاری یا سامع تک بات پہلے ہی مطالعہ یا سماعت کے دوران پہنچ جائے۔ اور ابلاغ کا کوئی پیچیدہ مسئلہ درپیش نہ ہو۔


کسی بھی شاعر کی کہی ہوئی کچھ باتیں یقیناً اس کی اپنی ذات، تجربات، اور اس کے اپنے خاص ماحول کی طرف بھی نشاندہی کرتی ہیں۔ لیکن، اس کی زیادہ تر تخلیقات کی بنیاد مطالعہ، مشاہدات، اور درد آفریں خارجی عناصر پر ہوتی ہے۔ شاعر اکثر جو بات صیغہء متکلّم استعمال کرتے ہوئے منظرِ عام پر لاتا ہے، وہ بات ضروری نہیں کہ اس کی اپنی ذات پر ہی منطبق کی جائے۔ وہ امر، وہ بات، دردِ جہاں کی ترجمان بھی تو ہوسکتی ہے۔


میں نے جب پہلی ہجرت کی، اس وقت مجھے ہجرت کا ادراک ہی نہیں تھا۔ بعدِ ازاں جو سفر بھی میں نے کیے وہ تحسینِ معاش و علم کی نظر ہوئے۔ لیکن میرے مُشاہدے میں ہزاروں ایسے لوگ ہیں جو اپنی چند روزہ زندگی میں ایک سے زیادہ ہجرتوں پر مجبور کردیے گئے۔ اس وضاحت کے بعد اس شعر پر نظرِ ثانی کی درخواست ہے: ۔۔


فقط اس خوف سے اک اور ہجرت کی ہے میں نے

مری طرح مری اولاد بے گھر ہو نہ جائے


میرا ایک اور شعر ہے: ۔۔


استعاروں کا کیا کروں اشعر

وہ نہیں جائے گا معانی تک


یہاں ان استعاروں کا تذکرہ ہے، جہاں قاری تلاشِ معانی میں اپنے آپ کو کسی اندھے کنویں کی نذر کردیتا ہے۔ یا، جہاں شاعر مُبہم استعاروں سے اپنی بات کو اس نہج پر پہنچا دیتا ہے کہ آپ کہہ اٹھیں گے، “معنی فی بطن الشاعر” ۔ میں نے اپنے امکان بھر کوشش کی ہے کہ اپنے آپ کو اس مقام تک پہنچنے سے بچائے رکھوں۔ یہ فیصلہ تو بہر حال آپ جیسے اہلِ نظر قارئین ہی کریں گے کہ میں حقیقتاً اس کوشش میں کامیاب ہوا یا نہیں۔


میں نے کہیں لکھا تھا: ۔۔


کوئی نہ باندھنا تمہید جب بھی سچ بولو

ہے پیش لفظ مُلمّع کتاب سے پہلے


ہوسکتا ہے کہ آپ یہاں میرے پیغام کی کچھ وضاحت طلب کرنا چاہیں۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ سچّائی ایک تیر کی طرح خطِ مستقیم میں سفر کرتی ہے۔ اس سفر میں اگر تمہید کے مُوڑ آجائیں تو سچّائی مشکوک و مجروح ہوجاتی ہے۔ مصرعہ ء ثانی میں “پیش لفظ” اور “کتاب”، یہ استعارے ہیں، تمہید اور سچّائی کے۔ ورنہ پیارے قارئینِ کرام، میں کتابوں کے پیش لفظ کا منکر قطعی نہیں ہوں۔ میری یہ تحریر ایک پیش لفظ ہی تو ہے۔ اگرچہ ہمارے “جستجو میڈیا” والے اسے “سلام و کلام” کا عنوان دیتے ہیں۔


میں 1999ء کے وسط میں سرطان، کینسر، جیسے مہلک مرض میں مُبتلا ہوگیا تھا۔ یہ معدہ کا کینسر اس قدر خطرناک نوعیّت کا تھا کہ کینیڈا کے قابل ترین طبّی ماہرینِ نے یہ اجتماعی فیصلہ سنا دیا تھا کہ میرے اور میری موت کے درمیان چند ماہ کا فاصلہ ہے۔


لیکن، اللہ تعالٰی کے خاص فضل و کرم اور احباب کی دعائوں سے میں اس لائق ہوا کہ میرا پہلا مجموعہء کلام، “تلخ و شیریں”، 2002ء میں اشاعت پذیر ہوا، جو غالباً آپ کی نظروں سے گزرچکا ہوگا، اور اب 2006ء میں “رختِ زندگی” آپ کے سامنے ہے۔


۔28 اگست 2003ء کے روز، میں، میری اہلیہ، میرے دو بیٹے اور ایک بہو، اور ایک پوتی اس وقت کار کے ایک اندوہناک حادثہ کا شکار ہوگئے، جب ہم کینیڈا کے شہر کیلگیری سے ٹورونٹو، چار ہزار کلومیٹر کا سفر طے کرتے ہوئے گھر واپس آرہے تھے۔ اس حادثہ میں تمام افراد شدید زخمی ہوئے۔ لیکن ایک زخم ایسا لگا، جو ہمارے گھرانے کے تمام افراد کے دلوں پر آج بھی تازہ ہے۔ ہمارے جواں سال فرزند سید محمد دانش مرحوم کی حادثاتی شہادت کا زخم۔۔۔ انا للہِ و انا الیہِ راجعون۔


شاید میرے بیٹے کو کوئی ایسا اشارہ تھا کہ وہ عین عالمِ شباب میں اپنی جان، جانِ آفریں کے سپرد کردے گا۔ شاید جب ہی وہ اپنے ہوش سنبھالنے سے اپنی شہادت کے دن تک دل و جان سے سامانِ آخرت اکٹّھا کرنے میں منہمک رہا۔ وہ اپنے ساتھ اعمالِ صالحہ کے ان گنت بیش بہا خزانے لے گیا۔ اس کی گزشتہ زندگی پر اب ہم نظر ڈالتے ہیں تو یہ عُقدہ کھلتا ہے کہ یہ جہانِ خرابات اُس جیسے نیک سیرت بچّے کے لائق تھا ہی نہیں۔ اسی لیے اللہ تعالٰی نے اسے اپنی نگہبانی میں لے لیا۔


آپ تمام خواتین و حضرات سے مُلتمس ہوں کہ میرے بچّے کو اگر ہوسکے تو اپنی دعائوں میں ضرور شامل رکھیے گا۔ شکریہ۔۔۔۔


جوان بیٹے کی تدفین کرکے بھی اب تک

کھڑے ہیں زندگی کاندھوں پہ ہم اُٹھائے میاں


میں جاتا رہتا ہوں اس کو دعائیں دینے مگر

کبھی تو اس کی بھی آواز مجھ کو آئے میاں



ایک جواں سال بیٹے کو اپنے ہاتھوں رُخصت کرنے کے بعد بھی اگر زندگی ہے تو زندہ رہنا ہی پڑتا ہے۔ انسان کس قدر کمزور، مجبور، اور لاچار ہے۔


جسمانی سفر کے ساتھ ساتھ، قلمی سفر کو بھی وقت گزاری کا بہانہ بنائے ہوئے ہوں۔ کبھی کبھی انسان گردشِ دوراں اور اپنے ہی گرد پھیلے ہوئے مسائل کے ہاتھوں اپنے آپ کو سارے عالم کی بھیڑ بھاڑ کے باوجود یک و تنہا محسوس کرتا ہے۔ اور بسا اوقات یہ احساسِ تنہائی ناقابلِ برداشت ہوجاتا ہے۔ ایسے حالات میں اگر کوئی مُخلص دوست اس کربناک صورتحال کا مداوا بن کر تنہائی کے احساس کو قابلِ برداشت حد تک کم کردیتا ہے تو ایسے شخص کے لیے لبوں پر اظہارِ تشکّر اور حَرفِ دُعا کیسے نہ ہو۔


میں حضرت محسن بھوپالی صاحب کا خصوصی شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ ان کی طبیعت اکثر ناساز رہتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود انہوں نے میری پہلی تصنیف “تلخ و شیریں” کی طرح اس بار بھی “رختِ زندگی” کے لیے غزلیات کے انتخاب کی زحمت ہی نہیں اُٹھائی، بلکہ اس مجموعہء کلام کا دیباچہ بھی تحریر فرما کر میری دوسری تصنیف کو بھی دولتِ اعتبار عطا کی۔


میں جناب ماجد خلیل کا احسان مند ہوں کہ انہوں نے مجھے برادرم قمر وارثی صاحب سے متعارف کرایا۔ ان کے ذریعہ نہ صرف یہ کہ کئی نعتیہ مشاعروں میں شرکت کی سعادت حاصل ہوئی بلکہ جب انہوں نے “رختِ زندگی” کی کتابتِ آلی کے لیے مجھے سرگرداں دیکھا تو از راہِ کرم انہوں نے کمپوزنگ، پروف ریڈنگ – قراءتی جانچ – اشاعت و طباعت کی تمام ذمّہ داریوں کا بوجھ ماشاء اللہ اپنے توانا کندھوں پر اُٹھالیا۔


میں برادرم قمر وارثی کا انتہائی ممنون ہوں۔


پیارے قارئین، خواتین و حضرات، اب مجھے آپ سے صرف یہ کہنا ہے کہ “رختِ زندگی” آپ کے ذوقِ مطالعہ کی نذر ہے۔ اگر ممکن ہو تو اپنے بعد از مُطالعہ تاءثّرات تحریر، اور ارسال کرکے ممنونِ احسان کیجیے گا۔


آپ انٹرنیٹ پر اس ملٹی میڈیا ویب کتاب کے ہر صفحہ پر دیے گئے تبصرہ، “کمینٹس” کی سہولت کو بھی با آسانی استعمال کرسکتے ہیں۔


شکریہ۔


آپ کا ۔۔۔ سّید محمّد مُنیف اشعر ملیح آبادی، عُفِیَ عَنہُ ۔


تلخ و شیریں کا "سلام و کلام" پڑھیے۔۔


رہگزار غزل کا "سلام و کلام" پڑھیے۔۔


No comments:

Design & Content Managers

Design & Content Managers
Click for More Justuju Projects