سُکونِ ساحلِ دریا مرے اندر نہیں ہے کہ بحرِ دل سے موجِ غم کوئی باہر نہیں ہے |
|
سنواروں کس طرح آخر خمِ زُلفِ تصوّر ابھی سُلجھا ہوا اتنا ترا پیکر نہیں ہے |
|
مری غزلوں میں کیسے اور کوئی ہو، کوئی بھی مری سوچوں میں تیری ذات سے ہٹ کر نہیں ہے |
|
کوئی بھی نشۂ مئے ناب بے خود کیا کرے گا تری آنکھوں کا جب تک سامنے ساغر نہیں ہے |
|
خِرَد کے بادلوں سے کیوں نہ پھر بارود برسے جنوں کی دسترس میں جب کوئی پتّھر نہیں ہے |
|
ہماری ذات سے کہہ دو ہمارے دشمنوں کو کسی خطرہ کا بھی امکاں پسِ منظر نہیں ہے |
|
سکت مجھ میں کہاں بدلہِ کی تجھ سے اور یوں بھی کوئی بھی منتقم اللہ سے بڑھ کر نہیں ہے |
|
تصوّر میں جو ہے میرے وہ بت کیسے تراشوں تصرّف میں مرے کوئی یدِ آذر نہیں ہیں |
|
کہاں ہم چھوڑ کر جائیں گے تجھ کو شہر بھر میں ترا جیسا کوئی چہرہ کوئی پیکر نہیں ہے |
|
یہی دیکھا ہے اشعؔر نے تری یادوں میں رہ کر یہاں دیواریں لاکھوں ہیں پہ کوئی در نہیں ہے |
|
کلیات منیف اشعر - رختِ زندگی میں خوش آمدید
Monday, May 4, 2009
سُکونِ ساحلِ دریا مرے اندر نہیں ہے
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment