Justuju Tv جستجو ٹی وی


کلیات منیف اشعر - رختِ زندگی میں خوش آمدید

Showing posts with label رخت زندگی، منیف اشعر، کینیڈا میں اردو، جدید اردو غزل، جستجو میڈیا. Show all posts
Showing posts with label رخت زندگی، منیف اشعر، کینیڈا میں اردو، جدید اردو غزل، جستجو میڈیا. Show all posts

Sunday, May 3, 2009

اس کی تصویر کو سینہِ سے لگائے رکھنا










اس کی تصویر کو سینہِ سے لگائے رکھنا

ہِجَر میں وصل کا ماحول بنائے رکھنا


اپنی آنکھوں میں کہیں چند خوشی کے آنسو

اے مرے دوست مرے نام بچائے رکھنا


عمر لمبی ہے بہت ظلمتِ شب کی لیکن

شمعِ اُمّیدِ سحر پھر بھی جلائے رکھنا


زندہ رکھنا ہے اگر خواہشِ تعبیر کوئی

آتشِ خواب تو لازم ہے جگائے رکھنا


مان ہی لے گا زمانہ تمہیں اہلِ دانش

اپنے سر پر یونہی دستار سجائے رکھنا


چشمِ گریہ سے بس اتنی سی گزارش ہے مری

رُو بہ رُو ان کے غمِ زیست چھپائے رکھنا


شہرِ دل ساری تمنّاؤں سے خالی کرکے

کیا ضروری ہے کوئی درد بسائے رکھنا


ہِجَر کی دھوپ کا احساس نہ جائے جب تک

سائباں زلف کا تم اپنی بنائے رکھنا


تم اگر مجھ سے عداوت پہ مُصِر ہو تو چلو

مجھ کو آتا ہے یہ رشتہ بھی نبھائے رکھنا


ہے مُحبّت تو کبھی یار مرا دل بھی رکھو

یہ بھی کیا بات ہوئی صرف ستائے رکھنا


گھر کا رستہ اسے معلوم ہے اشعؔر لیکن

اک دیا بام پہ تم پھر بھی جلائے رکھنا




دشمنی کیسےہو ثابت کوئی میخانہِ سے





دشمنی کیسےہو ثابت کوئی میخانہِ سے

کوئی رشتہ مرا ساقی سے نہ پیمانہِ سے


جب سے تو نے مجھے دیوانہ کیا ہے جاناں

لوگ رکھتے ہیں محبّت ترے دیوانہِ سے


غم کوئی ان سے بچھڑنے کا نہ ملنے کی خوشی

ہم سفر ہوکے بھی رہتے ہیں جو بیگانے سے


میری بات اور ہے ناصح یہ بتادے مجھ کو

باز آیا کوئی مجنوں ترے سمجھانے سے


اپنے خوابوں سے یہی خوف سا رہتا تھا مجھے

لے نہ جائے کوئی تعبیر کو سرہانے سے


مجھ سے خود پوچھتی رہتی ہے یہ اشکوں کی نمی

کیا قباحت ہے بچھڑنا کسی انجانے سے


جیسےآجاتی ہے ویرانۂ گلشن میں بہار

بزم میں آگئی رونق ترے آجانے سے


تجھ کو نزدیک سے دیکھا تو یہ محسوس ہوا

مل چکا ہوں کہیں پہلے ترے افسانہِ سے


قربتِ شمع کی دعوت پہ چلے ہیں اشعؔر

خاک ہوجانے کی امّید ہے پروانہِ سے






سماں جمود کا جانے یہ کب بدل جائے











سماں جمود کا جانے یہ کب بدل جائے

رخِ ہوا ذرا بدلے تو سب بدل جائے


یہ رنگِ ظلمتِ حاضر کی عمر ہی کیا ہے

دیوں کی لَو ہی بڑھادو تو سب بدل جائے


ہمارے درد کو آہنگ اپنا دو تو سہی

گھڑِ ی نہ بیتَے فضائے طرب بدل جائے


تو کیسے اٹھے ہوئے ہاتھ شرمسار نہ ہوں

دعا ہی تیری اگر زیرِ لب بدل جائے


بتاؤ کیسے نہ پھر دوستی کو ہاتھ بڑھیں

اگر عناد کا واحد سبب بدل جائے


بدلتے دیکھے ہیں کہسار و وادی و صحرا

عجیب کیا ہے جو طرزِ ادب بدل جائے


خوشی سے کہنا تم اشعؔر کو بے وفا لیکن

و ہ شخص وقت کے ہمراہ جب بدل جائے


Saturday, May 2, 2009

یاں تو جاں پر بنی سی لگتی ہے












یاں تو جاں پر بنی سی لگتی ہے

اور انہیں دل لگی سی لگتی ہے


پھیل جائے گی خوشبوؤں کی طرح

یہ مجھے عاشقی سی لگتی ہے


بھولتا ہوں تجھے تو کچھ دل میں

دھڑکنوں کی کمی سی لگتی ہے


تیری آہٹ ہو جب ذرا محسوس

زندگی ناچتی سی لگتی ہے


تیرے آنے سے ساری محفل میں

ایک دیوانگی سی لگتی ہے


ڈوب کر اس کو دیکھتے رہنا

اک طرح بندگی سی لگتی ہے


وہ جو دہلیز پر قدم رکھ دے

صحن میں چاندنی سی لگتی ہے


تجھ سے ملنے کی جب اُمّید بندھے

زندگی، زندگی سی لگتی ہے


اس کی بے ساختہ اداؤں میں

کس قدر سادگی سی لگتی ہے


کیوں ہے اعلانِ صبح کی تکرار

شہر میں تیرگی سی لگتی ہے


دیکھ لیتا ہوں جب اُسے اشعؔر

خواب میں روشنی سی لگتی ہے


Design & Content Managers

Design & Content Managers
Click for More Justuju Projects