
| سماں جمود کا جانے یہ کب بدل جائے رخِ ہوا ذرا بدلے تو سب بدل جائے |
|
|
| یہ رنگِ ظلمتِ حاضر کی عمر ہی کیا ہے دیوں کی لَو ہی بڑھادو تو سب بدل جائے |
|
|
| ہمارے درد کو آہنگ اپنا دو تو سہی گھڑِ ی نہ بیتَے فضائے طرب بدل جائے |
|
|
| تو کیسے اٹھے ہوئے ہاتھ شرمسار نہ ہوں دعا ہی تیری اگر زیرِ لب بدل جائے |
|
|
| بتاؤ کیسے نہ پھر دوستی کو ہاتھ بڑھیں اگر عناد کا واحد سبب بدل جائے |
|
|
| بدلتے دیکھے ہیں کہسار و وادی و صحرا عجیب کیا ہے جو طرزِ ادب بدل جائے |
|
|
| خوشی سے کہنا تم اشعؔر کو بے وفا لیکن و ہ شخص وقت کے ہمراہ جب بدل جائے |
|
|
No comments:
Post a Comment