سماں جمود کا جانے یہ کب بدل جائے رخِ ہوا ذرا بدلے تو سب بدل جائے |
|
یہ رنگِ ظلمتِ حاضر کی عمر ہی کیا ہے دیوں کی لَو ہی بڑھادو تو سب بدل جائے |
|
ہمارے درد کو آہنگ اپنا دو تو سہی گھڑِ ی نہ بیتَے فضائے طرب بدل جائے |
|
تو کیسے اٹھے ہوئے ہاتھ شرمسار نہ ہوں دعا ہی تیری اگر زیرِ لب بدل جائے |
|
بتاؤ کیسے نہ پھر دوستی کو ہاتھ بڑھیں اگر عناد کا واحد سبب بدل جائے |
|
بدلتے دیکھے ہیں کہسار و وادی و صحرا عجیب کیا ہے جو طرزِ ادب بدل جائے |
|
خوشی سے کہنا تم اشعؔر کو بے وفا لیکن و ہ شخص وقت کے ہمراہ جب بدل جائے |
|
کلیات منیف اشعر - رختِ زندگی میں خوش آمدید
Sunday, May 3, 2009
سماں جمود کا جانے یہ کب بدل جائے
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment