
| ہمارا زخمِ دل اب تو بہت کم ہوگیا ہے تمہارا پوچھنا "کیسےہو" مرہم ہوگیا ہے |
|
|
| کسی لمحہ بھی گرسکتی ہے بجلی آشیاں پر سنا ہے اک ستم گر ہم سےبرہم ہوگیا ہے |
|
|
| کہاںملتے ہیں سب کے ہاتھ میں اب اتنے پتّھر مرا بھی آنا جانا اب وہاں کم ہوگیا ہے |
|
|
| تجھے محسوس ہوتا ہے تغیّر تو عجب کیا کسی کا غم مری خوشیوں میں مدغم ہوگیا ہے |
|
|
| بہت امکان ہے ہونے لگے اب خوں کی بارش کہ سیلِ اشک آنکھوں میں بہت کم ہوگیا ہے |
|
|
| کئی اُمّیدیں وابستہ تھیں اس گلشن کی جن سے چراغِ انقلاب ان کا بھی مَدّھم ہوگیا ہے |
|
|
| جسے پیتا رہا ہوں میں کوئی امرت سمجھ کر وہی مشروبِ جاں تقدیر سے سَم ہوگیا ہے |
|
|
| نہ وہ رستہِ میں تھا میرے، نہ میں اس کے گماں میں مگر اب واقعہ یہ ہے کہ سنگم ہوگیاہے |
|
|
| بہت تفصیل سے قصّے وہاں کے کیا سناؤں مرا ان محفلوں میں جانا کم کم ہوگیا ہے |
|
|
| جدھر دیکھو اُدھر "جاؤ مشرّف جاؤ"، اشعؔر یہ نعرہ سنتے سنتے ناک میں دم ہوگیا ہے |
|
|
No comments:
Post a Comment