ہمارا زخمِ دل اب تو بہت کم ہوگیا ہے تمہارا پوچھنا "کیسےہو" مرہم ہوگیا ہے |
|
کسی لمحہ بھی گرسکتی ہے بجلی آشیاں پر سنا ہے اک ستم گر ہم سےبرہم ہوگیا ہے |
|
کہاںملتے ہیں سب کے ہاتھ میں اب اتنے پتّھر مرا بھی آنا جانا اب وہاں کم ہوگیا ہے |
|
تجھے محسوس ہوتا ہے تغیّر تو عجب کیا کسی کا غم مری خوشیوں میں مدغم ہوگیا ہے |
|
بہت امکان ہے ہونے لگے اب خوں کی بارش کہ سیلِ اشک آنکھوں میں بہت کم ہوگیا ہے |
|
کئی اُمّیدیں وابستہ تھیں اس گلشن کی جن سے چراغِ انقلاب ان کا بھی مَدّھم ہوگیا ہے |
|
جسے پیتا رہا ہوں میں کوئی امرت سمجھ کر وہی مشروبِ جاں تقدیر سے سَم ہوگیا ہے |
|
نہ وہ رستہِ میں تھا میرے، نہ میں اس کے گماں میں مگر اب واقعہ یہ ہے کہ سنگم ہوگیاہے |
|
بہت تفصیل سے قصّے وہاں کے کیا سناؤں مرا ان محفلوں میں جانا کم کم ہوگیا ہے |
|
جدھر دیکھو اُدھر "جاؤ مشرّف جاؤ"، اشعؔر یہ نعرہ سنتے سنتے ناک میں دم ہوگیا ہے |
|
کلیات منیف اشعر - رختِ زندگی میں خوش آمدید
Sunday, May 3, 2009
ہمارا زخمِ دل اب تو بہت کم ہوگیا ہے
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment