

| کہا یہ کس نے ملن کے اصول کچھ بھی نہیں ہمیں یہ شکلِ شرائط قبول کچھ بھی نہیں |
|
|
| تمام حسنِ چمن، میَں سمیٹ لایا مگر تمہارے سامنے کیا ہیں، یہ پھول کچھ بھی نہیں |
|
|
| ہے چونکہ تم سے ہی منسوب ہر شکست مری اسی لیے تو مرا دل ملول کچھ بھی نہیں |
|
|
| ہماری آبلہ پائی کو دیکھ لیتے اگر تمہی یہ کہتے کہ چہرے کی دھول کچھ بھی نہیں |
|
|
| کبھی کبھی میں اُسے بے خودی میں بھُول گیا مگر میں کیسےکہوں، میری بھول کچھ بھی نہیں |
|
|
| ہے ذرّہِ ذرّہِ کا کردار طے شدہ اشعؔر تمام ارض و سماء میں فضول کچھ بھی نہیں |
|
|
No comments:
Post a Comment