
| چھپانا چاہیے جو بات وہ بتاؤ نہیں جو سُرخرو نہ ہوا ، زخم وہ دکھاؤ نہیں |
|
|
| نشاں کوئی رہِ منزل کا جب تلک نہ ملے فریبِ عزمِ سفر کی طرف بلاؤ نہیں |
|
|
| حرام اس لیے رکھی ہے خودکشی کہ میاں کسی نے تم کو بُلایا نہیں تو جاؤ نہیں |
|
|
| فراقِ زیست کی تعبیر ہی ثمر ہے اگر تو خوابِ وصل کو بہتر ہے پھر اُگاؤ نہیں |
|
|
| اب ان سے جیتنا اچھا لگے تو کیسے لگے ابھی تو دل نے کہا ہے انہیں ہراؤ نہیں |
|
|
| یہ شہرِ دل کہیں ویران ہی نہ ہوجائے اک حد سے بڑھ کے تمنّاؤں سے بساؤ نہیں |
|
|
| ارادہ ترکِ ستم کا ہی کرلیا ہے اگر تو زندگی میں رہا کیا ہمیں بچاؤ نہیں |
|
|
| رہِ حیات میں جب دوقدم نہ ساتھ چلے تو رسمِ دنیا پئے مرگ بھی نبھاؤ نہیں |
|
|
| تو کیوں نہ اہلِ خِرَد خود کو سُرخرو جانیں اگر جنونِ محبّت میں رکھ رکھاؤ نہیں |
|
|
| نہیں ضرورتِ شرحِ وصال تم کو اگر تو پھر یہ کیا کہ بلاؤ نہیں اور آؤ نہیں |
|
|
| میں بے حسی پہ زمانہِ کی رو نہ دوں اشعؔر جو نغمہ درد سے عاری ہے وہ سناؤ نہیں |
|
|
No comments:
Post a Comment