عنوان کے پہلو سے تُو گمنام نہیں ہیے پر تیرے فسانہِ میں میرا نام نہیں ہے |
|
اٹکا ہےمرا سانس اسی خوف سے اب تک قاتل تو مرا مُوردِ الزام نہیں ہے |
|
وہ خوش ہے اگر مجھ کو ہرا کر تو یہ کہیے جذبِ دلِ ناکام بھی ناکام نہیں ہے |
|
میخانوں کے دستور کا حصّہ ہے یہ رندو مانگو نہ ابھی جام، ابھِی شام نہیں ہے |
|
کس پہلو قرار آئے گا جب تک کسی پہلو وہ دشمنِ جاں باعثِ آرام نہیں ہے |
|
کیوں پھیکا پڑا جاتا ہے وہ چاند ابھی سے میرا تو ابھی چاند سرِ بام نہیں ہے |
|
یوں رکھتا ہے مصروف مجھے اس کا تصوّر لگتا ہے کہ بس اور کوئی کام نہیں ہے |
|
رکھنا ہے قدم دشتِ محبّت میں تو سُن لو منزل کی مُسافت کوئی دوگام نہیں ہے |
|
آئینِ خراباتِ جہاں کیسا ہے اشعؔر پیاسوں کے مقدّر میں کوئی جام نہیں ہے |
|
کلیات منیف اشعر - رختِ زندگی میں خوش آمدید
Sunday, May 3, 2009
عنوان کے پہلو سے تُو گمنام نہیں ہیے
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment