
| غمِ فرقت کی سچّائی جہاں رکھا کروں گا فسانہ وصل کا بھی میں وہاں رکھا کروں گا |
|
|
| اگر میں دل کسی بازی میں اپنا ہار بیٹھا تمہاری یاد کا پیکر کہاں رکھا کروں گا |
|
|
| جہاں دیکھا کروں گا میں ترا نقشِ کفِ پا وہیں پر دل، محبّت کا جہاں، رکھا کروں گا |
|
|
| نشانہ کیسے تیرا چُوک سکتا ہے کہ میں خود ترے تیروں کی زد پر اپنی جاں رکھا کروں گا |
|
|
| تری بانہوں کی گرمی نے مجھے وہ کیف بخشا کہ میں اس کیف کو جنّت نشاں رکھا کروں گا |
|
|
| تغافل کی روش یونہی رہی قائم تو سُن لو میں دل کی بات محفل میں عیاں رکھا کروں گا |
|
|
| مجھے ناصح محبّت سے کہاں فرصت ملے گی میں تیرے واسطے سُود و زیاں رکھا کروں گا |
|
|
| گرجتے بادلوں کے ڈُوب مرنے کے لیے میں ترے آنسو بہانے کا سماں رکھا کروں گا |
|
|
| چھلکنے پائے گا دیکھوں مری آنکھوں سے کیسے میں اشعؔر غم کو سینہِ میں نِہاں رکھا کروں گا |
|
|

No comments:
Post a Comment