غمِ فرقت کی سچّائی جہاں رکھا کروں گا فسانہ وصل کا بھی میں وہاں رکھا کروں گا |
|
اگر میں دل کسی بازی میں اپنا ہار بیٹھا تمہاری یاد کا پیکر کہاں رکھا کروں گا |
|
جہاں دیکھا کروں گا میں ترا نقشِ کفِ پا وہیں پر دل، محبّت کا جہاں، رکھا کروں گا |
|
نشانہ کیسے تیرا چُوک سکتا ہے کہ میں خود ترے تیروں کی زد پر اپنی جاں رکھا کروں گا |
|
تری بانہوں کی گرمی نے مجھے وہ کیف بخشا کہ میں اس کیف کو جنّت نشاں رکھا کروں گا |
|
تغافل کی روش یونہی رہی قائم تو سُن لو میں دل کی بات محفل میں عیاں رکھا کروں گا |
|
مجھے ناصح محبّت سے کہاں فرصت ملے گی میں تیرے واسطے سُود و زیاں رکھا کروں گا |
|
گرجتے بادلوں کے ڈُوب مرنے کے لیے میں ترے آنسو بہانے کا سماں رکھا کروں گا |
|
چھلکنے پائے گا دیکھوں مری آنکھوں سے کیسے میں اشعؔر غم کو سینہِ میں نِہاں رکھا کروں گا |
|
کلیات منیف اشعر - رختِ زندگی میں خوش آمدید
Saturday, May 2, 2009
غمِ فرقت کی سچائی جہاں رکھا کروں گا
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment