تجھے بھلانے کا جاناں اب احتمال کہاں ہمارے زخم ابھی رُو بہ اندِمال کہاں |
|
زمانہ وقت کے اوراق کتنے پلٹے گا مرے فسانے میں کچھ ذکرِ ماہ و سال کہاں |
|
قدم قدم پہ ہے دنیا میں حُسن پھیلا ہوا تمام دنیا میں لیکن تری مثال کہاں |
|
ترا مزاج ہے برہم تو بس یہ کافی ہے ہمارے جینے کا ایسے میں اب سوال کہاں |
|
نظر گئی جو اُفق پر تو دل نے ہم سے کہا کہاں یہ چاند ستارے پری جمال کہاں |
|
قدم بتاؤ میں اپنے زمیں پہ کیسے رکھوں زمیں پہ رکھتا ہے مجھ کو ترا خیال کہاں |
|
ابھی تو اور کھلونے بہت سے ہیں اشعؔر ابھی تمہارے لیے وعدۂ وصال کہاں |
|
کلیات منیف اشعر - رختِ زندگی میں خوش آمدید
Saturday, May 2, 2009
تجھے بھلانے کا جاناں اب احتمال کہاں
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment