
| تجھے بھلانے کا جاناں اب احتمال کہاں ہمارے زخم ابھی رُو بہ اندِمال کہاں |
| |
| زمانہ وقت کے اوراق کتنے پلٹے گا مرے فسانے میں کچھ ذکرِ ماہ و سال کہاں |
| |
| قدم قدم پہ ہے دنیا میں حُسن پھیلا ہوا تمام دنیا میں لیکن تری مثال کہاں |
| |
| ترا مزاج ہے برہم تو بس یہ کافی ہے ہمارے جینے کا ایسے میں اب سوال کہاں |
| |
| نظر گئی جو اُفق پر تو دل نے ہم سے کہا کہاں یہ چاند ستارے پری جمال کہاں |
| |
| قدم بتاؤ میں اپنے زمیں پہ کیسے رکھوں زمیں پہ رکھتا ہے مجھ کو ترا خیال کہاں |
| |
| ابھی تو اور کھلونے بہت سے ہیں اشعؔر ابھی تمہارے لیے وعدۂ وصال کہاں |
| |
No comments:
Post a Comment