وہ چاہتا ہے کہ ہر شکل میں نباہ کروں کروں نہ زخموں کی پروا نہ کوئی آہ کروں |
|
مصوّری مرا فن ہے سو میرے ہاتھ میں ہے رکھوں سفید میں قرطاس یا سیاہ کروں |
|
کوئی رقیب نہ ناصح کوئی ہے میری طرف میں اپنے حُسنِ طلب کا کسے گواہ کروں |
|
کہوں میں دوست کسے اور کسے کہوں دشمن کسے گرادوں نظر سے میں کس کی چاہ کروں |
|
نہ آئے کوئی بھی الزامِ بے وفائی اگر اُدھر نہ جائے مرا دل جدھر نگاہ کروں |
|
قصیدے لکھنا مبارک انہیں مگر میں تو یہ سوچتا ہوں اک آئینہ نذرِ شاہ کروں |
|
ہیں بے زبان یہ ارض و سماء تو پھر اشعؔر میں بے گناہی کا اپنی کسے گواہ کروں |
|
کلیات منیف اشعر - رختِ زندگی میں خوش آمدید
Saturday, May 2, 2009
وہ چاہتا ہے کہ ہر شکل میں نباہ کروں
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment