
| زمیں سُورگ نہ ہوجاتی پھر سبھی کے لیے وفا جو ہوتی مقدّر میں ہرکسی کےلیے |
|
|
| کہاں سے لاؤں میں کچھ وقت دشمنی کے لیے یہ عمر تھوڑی ہے تھوڑی سی دوستی کے لیے |
|
|
| دکھوں کی بھِیڑ ہے اور درد بھی شدید مگر سَکوُتِ لب کی فضا ہے تری خوشی کے لیے |
|
|
| ملا کے سب کہاں چلتے ہیں کارواں سے قدم کئی چراغ ہیں رستوں کی روشنی کے لیے |
|
|
| تصوّرات کے سجدوں میں ایسا لطف کہاں جو تیرے قرب سے ملتا ہے بندگی کے لیے |
|
|
| تری ادائے تغافل ہے ضد پہ آئی ہوئی ہمارا دل بھی ہے بیتاب سرکشی کے لیے |
|
|
| وہاں تو اشعؔرِ ناداں اُٹھا کے سر چلیے جہاں ہے ظرف نہ ماحول عاجزی کے لیے |
|
|
|
|
No comments:
Post a Comment