نہ جانے کب چلے جائیں یہاں سے ہےرشتہ عارضی کون و مکاں سے |
|
بلند تر ہے مقام ان کا بیاں سے جنہیں نسبت ہے کُوئے لامکاں سے |
|
نشاں چھوڑے ہیں جو نعلینِ پا نے سمیٹو روشنی اس کہکشاں سے |
|
اٹھاؤں گا میں کیا کشکول اب کے نہیں پایا ہے کیا اس آستاں سے |
|
دلوں میں وسوسے لازم ہیں لیکن بچاتا ہے خدا ہی بدگماں سے |
|
جو سجدے ہم بجا لاتے ہیں ان کا بلاوا آتا رہتا ہے اذاں سے |
|
ہوائیں جب اکیلا چھوڑ بیٹھیں تو پھر کیا لینا دینا بادباں سے |
|
بچائے برق بے چاری تو کیسے شراروں کی ٹھنی ہے آشیاں سے |
|
سوائے خود فریبی کچھ نہیں ہے توقّع آج کل کے پاسباں سے |
|
اگر مقصود ہے کچھ کامرانی گزرنا تو پڑے گا امتحاں سے |
|
سَکوُتِ لب سے ہی جیتو گے اشعؔر محبّت ہار جاتی ہے فغاں سے |
|
کلیات منیف اشعر - رختِ زندگی میں خوش آمدید
Saturday, May 2, 2009
نہ جانے کب چلے جائیں یہاں سے
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment