
قصّہ نہ پوُ چھا جائے جو تعبیرِ خواب کا شکوہ کوئی کرے گا نہ میرے جواب کا |
|
|
| گو ڈر لگا تو رہتا ہے مجھ کو عتاب کا لیکن وہ ہے رحیم بڑا بے حساب کا |
|
|
| دیکھا جو اپنے ہاتھوں کے دامن میں بارہا تھا ہر دعا میں تذکرہ خانہ خراب کا |
|
|
| کیا پوچھتے ہو داستاں اس کے جمال کی کیا حُسن ہوسکے گا بیاں لاجواب کا |
|
|
| دریاؤں سے ،ندّی سے، سمندر سے ،جھیل سے میں پوچھتا ہوں راستہ بس اک سَراب کا |
|
|
| اے دوست اپنے بارے میں گر پوچھتا نہ تُو ہوتا سوال پیدا نہ میرے جواب کا |
|
|
| رہتا ہوں خوش کہ مولا غفورالرّحیم ہے خود آگہی رُلاتی ہے، ڈر ہے عذاب کا |
|
|
| ناکام امتحانِ محبّت ہوں میں تو کیا کس کو پتا ہے عشق کے سارے نصاب کا |
|
|
| حائل فراق و وصل کے مابین کچھ نہیں کچھ ہے تو صرف ایک ہمالہ حجاب کا |
|
|
| میزان کی صلیب نے دہلا کے رکھ دیا جب بھی خیال آیا گناہ و ثواب کا |
|
|
| گو خاک کردیا اسے جلووں کے شوق نے اشعرؔ میں حوصلہ تھا بڑے آب و تاب کا |
|
|
No comments:
Post a Comment