
| مری آنکھوں میں وہ تیرے ستارے آج بھی ہیں تروتازہ سرِ دامن شرارے آج بھی ہیں |
| |
| مری جھولی میں آخر کیا نہیں جو ہاتھ پھیلیں جو کل حاصل تھے وہ جھوٹے سہارے آج بھی ہیں |
| |
| نہیں ہے دل کا اب جن سے کوئی رشتہ سلامت زمانہِ کی نگاہوں میں ہمارے آج بھی ہیں |
| |
| تو پھر کیسے کوئی جشنِ دلِ ویراں منائے بہت سے لوگ شہرِ دل کو پیارے آج بھِی ہیں |
| |
| جو تم نے دل پہ چھوڑے تھے نشاں جوروستم کے لہو میں سانس لیتے وہ نظّارے آج بھی ہیں |
| |
| میں جن صدیوں میں اس کو با وفا کہتا رہا ہوں وہ لمحے خوش گمانی کے گزارے آج بھی ہیں |
| |
| خدا را غیر کی باتوں پہ اشعؔرتم نہ جاؤ ہمیں دیکھو تمہارے تھے تمہارے آج بھی ہیں |
| |
No comments:
Post a Comment