مری آنکھوں میں وہ تیرے ستارے آج بھی ہیں تروتازہ سرِ دامن شرارے آج بھی ہیں |
|
مری جھولی میں آخر کیا نہیں جو ہاتھ پھیلیں جو کل حاصل تھے وہ جھوٹے سہارے آج بھی ہیں |
|
نہیں ہے دل کا اب جن سے کوئی رشتہ سلامت زمانہِ کی نگاہوں میں ہمارے آج بھی ہیں |
|
تو پھر کیسے کوئی جشنِ دلِ ویراں منائے بہت سے لوگ شہرِ دل کو پیارے آج بھِی ہیں |
|
جو تم نے دل پہ چھوڑے تھے نشاں جوروستم کے لہو میں سانس لیتے وہ نظّارے آج بھی ہیں |
|
میں جن صدیوں میں اس کو با وفا کہتا رہا ہوں وہ لمحے خوش گمانی کے گزارے آج بھی ہیں |
|
خدا را غیر کی باتوں پہ اشعؔرتم نہ جاؤ ہمیں دیکھو تمہارے تھے تمہارے آج بھی ہیں |
|
کلیات منیف اشعر - رختِ زندگی میں خوش آمدید
Saturday, May 2, 2009
مری آنکھوں میں وہ تیرے ستارے آج بھی ہیں
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment