
| جب مری نظروں سے اُوجھل یہ جہاں ہوجائے گا میرا پیکر بھی زمانے سے نِہاں ہوجائے گا |
|
|
| وقت سے پہلے کا اندازہ گماں ہوجائے گا تیر کو تب دیکھنا جب بے کماں ہوجائے گا |
|
|
| لاکھ سو پردوں میں رکھو اس کی فطرت کے خلاف جذبہء دل خود بہ خود اک دن عیاں ہوجائے گا |
|
|
| کیا خبر تھی امن کی ہر چال خون آشام ہے حُرّیت کے نام کا منظر دھواں ہوجائے گا |
|
|
| سبز شاخوں پر، پرندوں کا ہے جو بھی آشیاں آگ برسے گی تو جل کے بے نشاں ہوجائے گا |
|
|
| ظالموں کو کیا مَیسّر آئے گی راہِ فرار ساتھ مظلوموں کے جس دن آسماں ہوجائے گا |
|
|
| خرمنِ دل کیا بچے گا ضبط کے آنچل کی خیر شعلہ ساماں دیکھنا جب سوزِ جاں ہوجائے گا |
|
|
| دشتِ الفت میں جب آجائے گا کوئی زلزلہ بارشِ مہر و وفا سے گلستاں ہوجائے گا |
|
|
| اس قدر تو قرب اس سے ہے کہ یہ عرفان ہو وہ ستمگر آج کا، کل مہرباں ہوجائے گا |
|
|
| منزلِ خود آگہی تک میں پہنچ جاؤں اگر آگہیء دہر کا سہل امتحاں ہوجائے گا |
|
|
| جس گھڑِی ہوجائے گا اس کو عطا اذنِ کرم سجدۂ اشعرؔ کو حاصل آستاں ہوجائے گا |
|
|
No comments:
Post a Comment