موت برحق ہے تو درماں کیا کریں کرکے بھی اندیشہء جاں کیا کریں |
|
کیسے ہو تکمیلِ ایماں کیا کریں نفس ہے در دستِ شیطاں کیا کریں |
|
پتّھروں کو مان لیتے ہیں خدا اور ہم تقدیسِ انساں کیا کریں |
|
وصل کے لمحوں میں بھی در آئے گا پھر بچھڑ جانے کا امکاں کیا کریں |
|
پہلے والوں نے ہمیں کیا دے دیا اور لا کر دل میں ارماں کیا کریں |
|
خود بہ خود بڑھتی چلی جاتی ہے یہ بِیل تیری عشقِ پیچاں کیا کریں |
|
اپنے دامن میں ندامت کے سوا کچھ نہیں تو نذرِ یزداں کیا کریں |
|
تم چلے آؤ تو شہر آباد ہو دل تو ورنہ ہے بیاباں کیا کریں |
|
وہ نہ آئے گا یہ دل سے کیا کہیں اک پریشاں کو پریشاں کیا کریں |
|
ہیں پریشاں اشک میرے رات دن کیسے دھوئیں داغِ عصیاں کیا کریں |
|
تم سے اشعؔر جاں کا چھوٹا سا سوال امتحاں کو اور آساں کیا کریں |
|
کلیات منیف اشعر - رختِ زندگی میں خوش آمدید
Sunday, May 3, 2009
موت برحق ہے تو درماں کیا کریں
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment