
| یاں تو جاں پر بنی سی لگتی ہے اور انہیں دل لگی سی لگتی ہے |
|
|
| پھیل جائے گی خوشبوؤں کی طرح یہ مجھے عاشقی سی لگتی ہے |
|
|
| بھولتا ہوں تجھے تو کچھ دل میں دھڑکنوں کی کمی سی لگتی ہے |
|
|
| تیری آہٹ ہو جب ذرا محسوس زندگی ناچتی سی لگتی ہے |
|
|
| تیرے آنے سے ساری محفل میں ایک دیوانگی سی لگتی ہے |
|
|
| ڈوب کر اس کو دیکھتے رہنا اک طرح بندگی سی لگتی ہے |
|
|
| وہ جو دہلیز پر قدم رکھ دے صحن میں چاندنی سی لگتی ہے |
|
|
| تجھ سے ملنے کی جب اُمّید بندھے زندگی، زندگی سی لگتی ہے |
|
|
| اس کی بے ساختہ اداؤں میں کس قدر سادگی سی لگتی ہے |
|
|
| کیوں ہے اعلانِ صبح کی تکرار شہر میں تیرگی سی لگتی ہے |
|
|
| دیکھ لیتا ہوں جب اُسے اشعؔر خواب میں روشنی سی لگتی ہے |
|
|
No comments:
Post a Comment