یاں تو جاں پر بنی سی لگتی ہے اور انہیں دل لگی سی لگتی ہے |
|
پھیل جائے گی خوشبوؤں کی طرح یہ مجھے عاشقی سی لگتی ہے |
|
بھولتا ہوں تجھے تو کچھ دل میں دھڑکنوں کی کمی سی لگتی ہے |
|
تیری آہٹ ہو جب ذرا محسوس زندگی ناچتی سی لگتی ہے |
|
تیرے آنے سے ساری محفل میں ایک دیوانگی سی لگتی ہے |
|
ڈوب کر اس کو دیکھتے رہنا اک طرح بندگی سی لگتی ہے |
|
وہ جو دہلیز پر قدم رکھ دے صحن میں چاندنی سی لگتی ہے |
|
تجھ سے ملنے کی جب اُمّید بندھے زندگی، زندگی سی لگتی ہے |
|
اس کی بے ساختہ اداؤں میں کس قدر سادگی سی لگتی ہے |
|
کیوں ہے اعلانِ صبح کی تکرار شہر میں تیرگی سی لگتی ہے |
|
دیکھ لیتا ہوں جب اُسے اشعؔر خواب میں روشنی سی لگتی ہے |
|
کلیات منیف اشعر - رختِ زندگی میں خوش آمدید
Saturday, May 2, 2009
یاں تو جاں پر بنی سی لگتی ہے
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment