نشاں تو ڈھونڈے سبھی نے مگر ملے ہی نہیں طلسمِ برق تو دیکھو شرر ملے ہی نہیں |
|
جو میں نے سوچا وہی بات اس نے کی ہوتی ہمارے فکر و نظر یوں مگر ملے ہی نہیں |
|
نہیں ہیں آج انا الحق کے دعویدار کہیں سو اہلِ حق بھی کسی دار پر ملے ہی نہیں |
|
کبھی ملو جو کہِیں تم تو یہ گلہ بھی کریں زمانہ ہوگیا لختِ جگر ملے ہی نہیں |
|
وہ دیدہ ور جنہیں منزل دکھائی دیتی ہے ہماری قوم کو وہ راہبر ملے ہی نہیں |
|
ہم اپنی حدِّ مہیّا بھی چھو سکے نہ کبھی قَفَس میں اتنے بال و پر ملے ہی نہیں |
|
قدم قدم پہ نہ دیتے جو آبلوں کا پیام ہمارے پاؤں کو ایسے سفر ملے ہی نہیں |
|
شجر تو جادۂ دشوار میں بہت تھے مگر جو سایہ دیتے ہمیں وہ شجر ملے ہی نہیں |
|
بچھڑ گئے تو ہم ان کو ،ہمیں وہ، شام و سحر تلاش کرتے رہے ہیں، مگر ملے ہی نہیں |
|
جو کہہ گئے تھے سفر میں رہیں گے ساری حیات کبھی ہمیں تو سرِ رہگزر ملے ہی نہیں |
|
یہ کیسا بانجھ سمندر ہے کیا کہیں اشعؔر صدف، صدف کو کھنگالا، گُہر ملے ہی نہیں |
|
کلیات منیف اشعر - رختِ زندگی میں خوش آمدید
Saturday, May 2, 2009
نشاں تو ڈھونڈے سبھی نے مگر ملے ہیں نہیں
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment