
| تمام اہلِ خِرَد یہ کمال کردیں گے چراغِ عشق کا جلنا محال کردیں گے |
| |
| کوئی مثال ہی دنیا کو مل نہ پائے کہیں غزل میں ایسا تجھے بے مثال کردیں گے |
| |
| ہمارا وعدہ ہےتجھ سے کہ یہ ترا پیکر ہم اپنی بانہوں میں رشکِ جمال کردیں گے |
| |
| ہمارے چہرے کو آنکھوں میں لے کے مت پھرنا وگرنہ لوگ بہت سے سوال کردیں گے |
| |
| ترے حصول کی خوشیاں نہ پاسکیں گے اگر تمام زیست کو نذرِ ملال کردیں گے |
| |
| ہر ایک شام مسلسل ہے انتظار کہ وہ کوئی تو شام بنامِ وصال کردیں گے |
| |
| دل اپنا جب بھی کہے گا غزل کہو اشعؔر ہم اپنے فکر کو تیرا خیال کردیں گے |
| |
No comments:
Post a Comment