
کوئی بھی لفظ جہاں رکھ بہت سنبھال کے رکھ تاءثّرات سخن میں نئے خیال کے رکھ |
|
یہ رات کتنی اندھیری ہے اس کا خوف نہ کر دیا جو تیرے تصرّف میں ہے اُجال کے رکھ |
|
اگر تو ہم سے طلبگارِ داد ہے تو ذرا ہمارے سامنے لفظ و بیاں کمال کے رکھ |
|
جوابِ کم نگہی بے رُخی ابھی سے نہ سوچ کچھ اپنے ذہن میں امکاں نئے سوال کے رکھ |
|
ہے قول و فعل میں ہر اذنِ انتخاب مگر نظر میں اپنی نتائج ذرا مآل کےرکھ |
|
مبادا باعثِ حیرت نہ ہو یقینِ وفا خیال و فکر میں امکان احتمال کے رکھ |
|
غزل میں اپنی اگر ہوسکے تو اے اشعؔر برائے اہلِ جنوں کچھ سُخن دھمال کے رکھ |
|
No comments:
Post a Comment