ظلم سے برسرِ پیکار تو رہنے دیتے عکسِ مظلوم سرِ دار تو رہنے دیتے |
|
سر نہیں تھا نہ سہی رسمِ کہن کی خاطر گردنِ صدر پہ دستار تو رہنے دیتے |
|
مجھ پہ حاصل ہے تمہیں حق پئے دشنام مگر اپنا یہ حق سرِ بازا رتو رہنے دیتے |
|
پیار تو خیر کبھی مجھ سے تمہیں تھا ہی نہیں پیار کے نام کا بیوپار تو رہنے دیتے |
|
ساری پابندیاں منظور تھیں مجھ کو لیکن ایک پابندی ء اظہار تو رہنے دیتے |
|
چھوڑ آئے مری یادیں بھی لحد میں احباب کچھ دنوں ساتھ مرا پیار تو رہنے دیتے |
|
ساتھ رہنے کی قسم چاہی تھی میں نے لیکن مرحلہ یہ بھی تھا دشوار تو رہنے دیتے |
|
تم کو ہرجائی نہ کہتا کبھی اشعؔر جاناں تم ذرا خود کو وفا دا ر تو رہنے دیتے |
|
|
کلیات منیف اشعر - رختِ زندگی میں خوش آمدید
Saturday, May 2, 2009
ظلم سے برسرِ پیکار تو رہنے دیتے
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment