کیا خوب بے حساب تھا، اچھا لگا مجھے دریا سا اک سراب تھا اچھا لگا مجھے |
|
تیرے سوا خدا نے مجھے جو بھی کچھ دیا سب مفت کا ثواب تھا اچھا لگا مجھے |
|
فُرقت کا سلسلہ تری یادوں کے دوش پر حالانکہ اک عذاب تھا اچھا لگا مجھے |
|
وہ شخص مجھ میں ایک چراغاں سا کرگیا مانندِ آفتاب تھا، اچھا لگا مجھے |
|
دل کی خلش سمجھ کے جِسے ٹالتا رہا وہ ایک زخمِ ناب تھا، اچھا لگا مجھے |
|
جس طرح دے رہا تھاوہ بدلہ وفاؤں کا بالکل نیا حساب تھا، اچھا لگا مجھے |
|
میرا وجود آپ کے پہلو میں جس طرح اک پیالۂ شراب تھا، اچھا لگا مجھے |
|
ہر فرد جس نے دیدیا گھر کا رِ زکواۃ میں کیا صاحبِ نصاب تھا، اچھا لگا مجھے |
|
اشعؔر جو ہے شریکِ سفر آج بھی مرا وہ ہی تو میرا خواب تھا، اچھا لگا مجھے |
|
کلیات منیف اشعر - رختِ زندگی میں خوش آمدید
Monday, May 4, 2009
کیا خوب بے حساب تھا، اچھا لگا مجھے
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment