
| یہی سچ ہے سو کہہ دینے کی ہمّت ہوگئی ہے مجھے اے زندگی تجھ سے محبّت ہوگئی ہے |
|
|
| ترا کچھ ربط ہے ایسا مرے تارِ نفس سے تجھے سانسوں میں رکھنے کی ضرورت ہوگئی ہے |
|
|
| بس اک آہٹ کا رشتہ ہی نہیں مخبر ہے تیرا رگِ جاں سے تری خوشبو کی نسبت ہوگئی ہے |
|
|
| تعلّق کیا ہوا قائم تری چاہت سے میرا مجھے کچھ اور دن جینے کی حسرت ہوگئی ہے |
|
|
| محبّت درد ہے فرقت ہے رسوائی ہے لیکن انہی اجزائے ترکیبی سے الفت ہوگئی ہے |
|
|
| ترے دستِ حنائی سے ملے جو رنگ ونکہت مرے پھولوں میں بھی تیری شباہت ہوگئی ہے |
|
|
| مرے شوقِ طلب پر وہ ترا قاتل تبسّم دلِ بسمل پہ جیسے اک قیامت ہوگئی ہے |
|
|
| تجھے کیا پالیا افلاک سے دستِ دعا نے میں سمجھا سُرخرو میری عبادت ہوگئی ہے |
|
|
| اب اس سے بڑھ کے کیا ہوگا ثبوت اپنائیت کا انہیں مجھ سے تغافل کی شکایت ہوگئی ہے |
|
|
| میں اس فردوس کے حیراں ملائک سے کہوں گا ندامت ہی مری شاید برأت ہوگئی ہے |
|
|
| نئی غزلیں نئے انداز اور افکارِ تازہ یہی رسوائی اشعؔر وجہِ شہرت ہوگئی ہے |
|
|
No comments:
Post a Comment