
| کچھ ایسا اُٹھا ہے مجھ سے مری نظر کا یقیں کہ آہی جائے گا مجھ کو ترے ہنر کا یقیں |
|
|
| اب اس سے بڑھ کے بھلا اعترافِ شب کیا ہو دلارہے ہیں وہ کب سے ہمیں سحر کا یقیں |
|
|
| کسی کا ہو نہ تعاقب نہ یاوروں کی تلاش ملے جو ہم کو کہیں اپنے ماحضر کا یقیں |
|
|
| فریبِ لذّتِ عصیاں میں ہم نہ آتےمگر ہمیں نصیب تو ہوتا کسی ضرر کا یقیں |
|
|
| لگے نہ لمحہ پلٹنے میں گھر کی اُور مگر |
| کوئی دلائے تو ہم کو ہمارے گھر کا یقیں |
|
|
| شکستہ کیسے ہو امّید سائے کی جب تک ہماری آبلہ پائی کو ہے شجر کا یقیں |
|
|
| ہر اک صدف کا مقدّر جدا جدا ہے مگر ہر اک صدف سے ہے قائم کسی گہر کا یقیں |
|
|
| مجھے یقیں ہے کہ میں اس کا ہو نہیں سکتا اسے دعاؤں میں اپنی مگر اثر کا یقیں |
|
|
| گلے لگاتی ہیں جب خوشبوئیں جبیں کو مری تو ہونے لگتاہے پھر ان کے سنگِ در کا یقیں |
|
|
| اِدھر کا سلسلہ ہوجائے بے مثال اشعؔر نمو جو پائے ترے دل میں کچھ اُدھر کا یقیں |
|
|
No comments:
Post a Comment