کچھ ایسا اُٹھا ہے مجھ سے مری نظر کا یقیں کہ آہی جائے گا مجھ کو ترے ہنر کا یقیں |
|
اب اس سے بڑھ کے بھلا اعترافِ شب کیا ہو دلارہے ہیں وہ کب سے ہمیں سحر کا یقیں |
|
کسی کا ہو نہ تعاقب نہ یاوروں کی تلاش ملے جو ہم کو کہیں اپنے ماحضر کا یقیں |
|
فریبِ لذّتِ عصیاں میں ہم نہ آتےمگر ہمیں نصیب تو ہوتا کسی ضرر کا یقیں |
|
لگے نہ لمحہ پلٹنے میں گھر کی اُور مگر |
کوئی دلائے تو ہم کو ہمارے گھر کا یقیں |
|
شکستہ کیسے ہو امّید سائے کی جب تک ہماری آبلہ پائی کو ہے شجر کا یقیں |
|
ہر اک صدف کا مقدّر جدا جدا ہے مگر ہر اک صدف سے ہے قائم کسی گہر کا یقیں |
|
مجھے یقیں ہے کہ میں اس کا ہو نہیں سکتا اسے دعاؤں میں اپنی مگر اثر کا یقیں |
|
گلے لگاتی ہیں جب خوشبوئیں جبیں کو مری تو ہونے لگتاہے پھر ان کے سنگِ در کا یقیں |
|
اِدھر کا سلسلہ ہوجائے بے مثال اشعؔر نمو جو پائے ترے دل میں کچھ اُدھر کا یقیں |
|
کلیات منیف اشعر - رختِ زندگی میں خوش آمدید
Monday, April 27, 2009
کچھ ایسا اُٹھا ہے مجھ سے مری نظر کا یقیں
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment