
| دیے جلاؤ نہ بیکار تیرگی کے لیے ترس رہے ہیں بہت لوگ روشنی کے لیے |
| |
| یہی نہیں کہ ہم آئے ہیں بندگی کے لیے ہمیں تمہاری ضرورت ہے زندگی کے لیے |
| |
| قرار دادیں جو ظلم و ستم کی پاس کرے اسی کو ملتا ہے 'نوبل ' بھی آشتی کے لیے |
| |
| وہ دوست کیا مرا دشمن بھی ہونہیں سکتا مرا معیار مقرّر ہے دشمنی کے لیے |
| |
| تجھے بھی پڑھنا ہے باقی مگر ابھی تو مجھے بہت ہے کام مری جاں خود آگہی کے لیے |
| |
| مری غزل میں کوئی اور کیسے در آئے ترا جمال ہے بس میری شاعری کے لیے |
| |
| کسی کسی کو ہے بس تھوڑی فکر زادِ سفر اگرچہ لکھا ہوا ہے سفر سبھی کے لیے |
| |
| یہ کون کہتا ہے حیوان ہونا لازم ہے اب ایسی شرط کہاں ہے درندگی کے لیے |
| |
| تجھے گلے سے لگا لے گا دوڑ کر اشعؔر بڑھا کے دیکھ ذرا ہاتھ دوستی کے لیے |
| |
No comments:
Post a Comment