
| میں چاہتا ہوں تجھے شہر سے نہاں رکھوں سو تجھ کو دل میں نہ رکھوں تو پھر کہاں رکھوں |
|
|
| یہ بوئے مشک جو ہے خاص آپ سے منسوب اسی کو آپ کے کوُچہِ کا میں نشاں رکھوں |
|
|
| کہاں ہے اور کوئی بے نیاز تیرے سوا مجال کیا ہے مری اور کا گماں رکھوں |
|
|
| یہ آرزوئے جبیں ہے اگر اجازت ہو تمہارے در کو بنا کر میں آستاں رکھوں |
|
|
| وہ بے گھری کے مناظر مجھے بھی کہتے ہیں نہ سر پہ اپنے کوئی چھت نہ آسماں رکھوں |
|
|
| تباہ کاریء فطرت کی ظلمتوں کے لیے میں اپنی آنکھ میں تاروں کی کہکشاں رکھوں |
|
|
| جدھر بھی جاتا ہوں سب پوچھتے ہیں نام ترا میں تیرے شہر میں کس کس کو راز داں رکھوں |
|
|
| تمہی پہ مرنا مقدّر ہوا تو پھر جاناں تمہارے پیار کو کیسے نہ حرزِ جاں رکھوں |
|
|
| میں ناخدا ہی فقط ہوں خدا نہیں اشعؔر بچائے کیسے ہر آندھی سے بادباں رکھوں |
|
|
No comments:
Post a Comment