میں چاہتا ہوں تجھے شہر سے نہاں رکھوں سو تجھ کو دل میں نہ رکھوں تو پھر کہاں رکھوں |
|
یہ بوئے مشک جو ہے خاص آپ سے منسوب اسی کو آپ کے کوُچہِ کا میں نشاں رکھوں |
|
کہاں ہے اور کوئی بے نیاز تیرے سوا مجال کیا ہے مری اور کا گماں رکھوں |
|
یہ آرزوئے جبیں ہے اگر اجازت ہو تمہارے در کو بنا کر میں آستاں رکھوں |
|
وہ بے گھری کے مناظر مجھے بھی کہتے ہیں نہ سر پہ اپنے کوئی چھت نہ آسماں رکھوں |
|
تباہ کاریء فطرت کی ظلمتوں کے لیے میں اپنی آنکھ میں تاروں کی کہکشاں رکھوں |
|
جدھر بھی جاتا ہوں سب پوچھتے ہیں نام ترا میں تیرے شہر میں کس کس کو راز داں رکھوں |
|
تمہی پہ مرنا مقدّر ہوا تو پھر جاناں تمہارے پیار کو کیسے نہ حرزِ جاں رکھوں |
|
میں ناخدا ہی فقط ہوں خدا نہیں اشعؔر بچائے کیسے ہر آندھی سے بادباں رکھوں |
|
کلیات منیف اشعر - رختِ زندگی میں خوش آمدید
Monday, April 27, 2009
میں چاہتا ہوں تجھے شہر سے نہاں رکھوں
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment