
غلط ہے اس کا مقدر ہوا کے ہاتھ میں ہے کہ جلنا بجھنا دیے کا خدا کے ہاتھ میں ہے |
|
کوئی مسیحا ہمارے تو کام آنہ سکا سو دردِ دل کے لیے کیا دوا کے ہاتھ میں ہے |
|
میں اس یقیں سے اُٹھاتا ہوں اپنا دستِ طلب حیات و موت بھی گویا دعا کے ہاتھ میں ہے |
|
نہ کیسے شہر کی سڑکوں پہ موت رقص کرے تعصّبات کا خنجر فضاء کے ہاتھ میں ہے |
|
کھلی فضا میں کھڑا ہوں کسی امّید پہ میں تمہاری خوشبو سنا ہے صبا کے ہاتھ میں ہے |
|
یہ ہست و بود کے مابین اور کچھ بھی نہیں عدم کی بات مگر ہاں قضا کے ہاتھ میں ہے |
|
رہوں گا صرف تمہارا ہی میں مگر اشعؔر مرا یہ وعدہ تمہاری وفا کے ہاتھ میں ہے |
|
No comments:
Post a Comment