
|
|
| صرف اس بات پہ حیراں ہیں تمہاری آنکھیں زندگی کا مری ساماں ہیں تمہاری آنکھیں |
|
|
| جو رہینِ لبِ اظہار نہیں ہے اب تک اس تمنّا سے گریزاں ہیں تمہاری آنکھیں |
|
|
| کتنی مشکل ہے رسائی کوئی مجھ سے پوچھے دیکھنے میں بڑی آساں ہیں تمہاری آنکھیں |
|
|
| انگلیاں کیوں نہ اٹھیں گی رخِ حیراں کی طرف ساری محفل میں نمایاں ہیں تمہاری آنکھیں |
|
|
| اب تو یوں ہے کہ رہے راز یا افشا ہوجائے زندگی کا مری عنواں ہیں تمہاری آنکھیں |
|
|
| اس طرف اک ورقِ سادہ سا چہرہ ہے مرا اور ادھر مثلِ کتب خواں ہیں تمہاری آنکھیں |
|
|
| میں تو خود آکے یہاں قید ہوا تھا جاناں کیوں بھلا اتنی پشیماں ہیں تمہاری آنکھیں |
|
|
| تم کوئی بات بھی اشعؔر سے چھپاؤ کیسے ترجمانِ دلِ پنہاں ہیں تمہاری آنکھیں |
|
|
No comments:
Post a Comment