دریچہ کوئی ہوا کا ہمارے گھر میں کہاں پر اس سے اچھا قفس بھی کوئی نظر میں کہاں |
|
بھلی تو ہوگی صَنوبر کی چھاؤں بھی لیکن تمہاری زلف کی حدّت کسی شجر میں کہاں |
|
تلاش کرتے ہو تم جس کو آسمانوں میں وجود اس کا نہیں ہے تو، بحر و بر میں کہاں |
|
میں اس سے کیسے کہوں رات جلد لوٹ آنا وہ میرا بیٹا اب اتنا مرے اثر میں کہاں |
|
میں دو گھڑی کبھی خود سے بھی مل لیا ہوتا سُکُون ملا ہی مجھے ایسا عمر بھر میں کہاں |
|
ہے جزوِ ایماں محمدؐ بشر ہی تھے بے شک مثال ان کی مگر ہاں کسی بشر میں کہاں |
|
ذرا وہ ہوش میں آئے تو میں کہوں اس سے مقامِ عجز کا اقبال کرّوفر میں کہاں |
|
نہ گرتی برق تو ہم کو پتا ہی کیا چلتا جو بات سوزشِ لب کی ہے وہ شرر میں کہاں |
|
میں کہہ تو دیتا جو لکھتا ہوں معتبر ہے مگر کوئی بھی زعمِ ہنر حَرفِ معتبر میں کہاں |
|
مزہ تو جب تھا کہ رہزن کو ماردیتا کوئی مگر یہ زور کسی اپنے راہبر میں کہاں |
|
مری دعا میں جو رہتی ہے صبحِ نو اشعؔر وہ شب گزیدہ سویروں کی رہ گزر میں کہاں |
|
کلیات منیف اشعر - رختِ زندگی میں خوش آمدید
Friday, May 1, 2009
دریچہ کوئی ہوا کا ہمارے گھر میں کہاں
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment