عجب خزانہء نایاب میری ذات میں ہے کسی کے لمس کا احساس میرے ہاتھ میں ہے |
|
یہ دیکھنا ہے کہ اب کون کھینچتا ہے ہمیں اک اور چاند کی آمد بھی چاند رات میں ہے |
|
کھِلے ہیں پھُول چمن میں ہر ایک سمَت مگر مری بہار توبس تیرے التفات میں ہے |
|
جلادو سارے گھروں کو مگر خیال رہے تمہارا گھر بھی اسی عصرِ حادثات میں ہے |
|
تمہی کہو مجھے اب دوستوں کا ڈر کیوں ہو کہ میرا دشمنِ جاں اب تو میرے ساتھ میں ہے |
|
جو ہوسکے تو کہیں اس کو قید کرلیجیے ابھی تو شکر ہے یہ وقت اپنے ہاتھ میں ہے |
|
ہم اپنے شہر کا احوال کیا لکھیں اشعؔر نہ دن میں کوئی کشش ہے، نہ لطف رات میں ہے |
|
کلیات منیف اشعر - رختِ زندگی میں خوش آمدید
Friday, May 1, 2009
عجب خزانہء نایاب میری ذات میں ہے
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment