جب گلستاں میں یار تو ہی نہیں پھر کسی گل کی آرزو ہی نہیں |
|
اپنے لب خود ہی کون سیتا ہے کیا کریں اذنِ گفتگو ہی نہیں |
|
چاکِ دل کیا دکھائیے اس کو اس میں بخیہ گری کی خُو ہی نہیں |
|
خود کو زندہ کہوں تو کیسے کہوں زندگی میرے رُو بہ رُو ہی نہیں |
|
بن بلائے میں جا کے اس سے ملوں کیا مری کوئی آبرو ہی نہیں |
|
کارِ خود آگہی ہے یوں بھی کٹھن اور تماشا کہ ،جستجو ہی نہیں |
|
دشت جیسا لگے تو کیوں نہ لگے دل میں جب شہرِ آرزو ہی نہیں |
|
راحتِ جاںمرا غنیمِ سکوں اک زمانہ ہے صرف تُو ہی نہیں |
|
جام خالی ہیں مئے کشوں کے سبھی دسترس میں کوئی سَبُو ہی نہیں |
|
نعت کا حق ادا نہ ہو پایا حرف لگتے ہیں با وضو ہی نہیں |
|
اس مسیحا سےکیا گلہ اشعؔر زخمِ دل میرا سُرخرو ہی نہیں |
|
کلیات منیف اشعر - رختِ زندگی میں خوش آمدید
Friday, May 1, 2009
جب گلستاں میں یار تو ہی نہیں
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment