غلط کہ دخل غزل میں مرے کمال کا ہے مرے سُخن میں یہ جلوہ ترے خیال کا ہے |
|
کمالِ سحرِ تکلّم مرا بھی ہوگا مگر مرے جواب میں جو ہر، ترے سوال کا ہے |
|
وہ رنگِ قوسِ قزح ہوں کہ نکہتیں ان کی جمال پھولوں میں سارا تری مثال کا ہے |
|
کسی کو ہوش کہاں تھا کہ خود کو جان سکے یہ بے خودی کا تماشا اُسی دھمال کا ہے |
|
جسے بھی دیکھو، رقیبانہ دیکھتا ہے ہمیں ہمارا آپ کا رشتہ بڑے کمال کا ہے |
|
جو آگیا کئی آنکھوں سےمنعکس ہوکر یہ نور چہرے پہ میرے، تیرے جمال کا ہے |
|
جلال اس کا بھلا کیا کوئی بیان کرے یہ حشرِ طوُر تو اک جلوۂ جمال کا ہے |
|
تمہاری آنکھوں کے حلقے یونہی نہیں اشعؔر میں جانتا ہوں یہ بادل کسی ملال کا ہے |
|
کلیات منیف اشعر - رختِ زندگی میں خوش آمدید
Friday, May 1, 2009
غلط کہ دخل غزل میں مرے کمال کا ہے
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment