فغاں میں اپنی کوئی نغمہء طرب بھی نہیں لبوں پہ اور تبسّم کا کچھ سبب بھی نہیں |
|
میں عام رستوں پہ چلتا نہیں ہوں خیر مگر جو راہ میری ہے اپنی بہت عجب بھی نہیں |
|
میں گِڑ گِڑاؤں کہ پیاسا ہوں ہاتھ پھیلادوں انا کا قتل کروں ایسا جاں بہ لب بھی نہیں |
|
سحر کے قدموں پہ نظریں لگی ہیں سب کی مگر وہ ایک شخص جسے اضطرابِ شب بھی نہیں |
|
یہ ماہ و سال کی جاناں بساط ہی کیا ہے نصابِ عشق میں شامل حسب نسب بھی نہیں |
|
روش ہے عام فریبِ خلوص کی اشعؔر نہیں تھا پہلے بھی قائل میں، اور اب بھی نہیں |
|
کلیات منیف اشعر - رختِ زندگی میں خوش آمدید
Friday, May 1, 2009
فغاں میں اپنی کوئی نغمہء طرب بھی نہیں
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment