
| کون کہتا ہے کہ دے دو، رہِ منزل مجھ کو کیا سمجھ رکھا ہے تم نے کوئی سائل مجھ کو |
|
|
| میں اک انساں ہوں، محبّت مرا ایماں ہے مگر تُو کبھی پائے گا نفرت پہ بھی مائل مجھ کو |
|
|
| لطف لینا ہے ذرا موجِ حوادث کا ابھی ابھی مطلوب کہاں ہے ترا ساحل مجھ کو |
|
|
| بھول جانا ترا آساں ہے بَقَولِ ناصح پوچھ مجھ سے تو یہ آساں بھی ہے مشکل مجھ کو |
|
|
| یا مری طرح سے ہوجائیے الفت کے سفیر یا تو کرلیجیے عداوت کا ہی قائل مجھ کو |
|
|
| تا کہ ہوجائیں ذرا اور شفق رنگ، سخن اپنے افکار میں کرلیجیے شامل مجھ کو |
|
|
| سہہ کے خاموش گزر جاتا ہوں میں سبّ و شتم ظرف کردیتا ہے اپنا کبھی بزدل مجھ کو |
|
|
| کون ہے مجھ سے بڑا کوئی تونگر اشعؔر تو میسّر ہے تو پھر کیا نہیں حاصل مجھ کو |
|
|
No comments:
Post a Comment