یہی نہیں کہ فقط لطفِ زندگی کم ہے جو تو نہیں تو مرے گھر میں روشنی کم ہے |
|
سزا کچھ ایسی بتاؤ کہ حق ادا ہوجائے تمہیں رلایا ہے میں نے تو خودکشی کم ہے |
|
بس اک یہی تو ہے تم سے ہمیں گلہ جاناں کہ تم کو ہم سے شکایت کوئی رہی کم ہے |
|
یہ تم سے روح کا رشتہ بھی کم نہیں لیکن نشاطِ جاں کے لیے حرفِ دوستی کم ہے |
|
اسے یقین ہے میں ہار جاؤں گا اس سے وہ کیا کرے کہ اسے مجھ سے آگہی کم ہے |
|
خوشا کہ کچھ تو نئے قافلے بھی چل نکلے سنا یہ ہے کہ ذرا خوفِ رہزنی کم ہے |
|
نہ سامعین نہ شعراء نہ شاعرات ہیں کم مشاعروں میں اگر ہے تو شاعری کم ہے |
|
خجل سا ہوں کہ مسیحا سے کیا بیان کروں وہ آگیا ہے تو اب دل میں درد بھی کم ہے |
|
گیا ہے جب سے مرا دوست روٹھ کر اشعؔر مرے لبوں پہ اسی روز سے ہنسی کم ہے |
|
کلیات منیف اشعر - رختِ زندگی میں خوش آمدید
Friday, May 1, 2009
یہی نہیں کہ فقط لطفِ زندگی کم ہے
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment