میں خونِ دل سے کہوں گا کہ اب خدا کے لیے برسنا چھوڑ دے آنکھوں سے بے وفا کے لیے |
عذابِ فرقتِ پیہم کو عدل کیسے کہوں رفاقتوں کی گواہی تو ہو سزا کے لیے |
میں بجھ گیا ہوں مگر اور سب تو روشن ہیں کسی دیے کو تو بجھنا ہی تھا ہوا کے لیے |
وہ تجھ سے میری عقیدت کے لالہ و گل تھے مری نظر نے جو بوسے تری حیا کے لیے |
مری زبان کو اکثر بہ اذنِ ربّ ِ کریم قبول ہو کے ملے حرف مُدّعا کے لیے |
وہ چارہ گر تھا مگر چارہ گر بھی کیا کرتا ہوئے نہ زخم ہی مائل کسی دوا کے لیے |
سنوارنے میں جسے عمر کٹ گئی اشعؔر بس ایک لمحہ بہت ہے اسے فنا کے لیے |
کلیات منیف اشعر - رختِ زندگی میں خوش آمدید
Friday, May 1, 2009
میں خونِ دل سے کہوں گا کہ اب خدا کے لیے
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment