
| مجھ کو اک پیماں وفا کا چاہیے کچھ تو جینے کا بہانہ چاہیے |
|
|
| ان کو میرا دل دوبارہ چاہیے توڑنےکو پھر کھلونا چاہیے |
|
|
| بےوفا ہرجائی کہتے ہو مجھے تم کو آئینہ دکھانا چاہیے |
|
|
| کوئی مشکل کام ناممکن نہیں ہاں مگر پختہ ارادہ چاہیے |
|
|
| رونقِ زنداں ضروری ہے تو پھر سانس لینے کو دریچہ چاہیے |
|
|
| لُوٹنا ہے روشنی کے شہر کو رہبروں کو بس اندھیرا چاہیے |
|
|
| چھین لوں ظالم زمانہِ سے تجھے صرف اک تیرا اشارہ چاہیے |
|
|
| بام و در سارے مہک اُٹھیں ابھی آنکھ میں ان کا سراپا چاہیے |
|
|
| آپ کا ہر غم ہے اب اشعؔر کا غم آپ کو بس مُسکرانا چاہیے |
|
|
No comments:
Post a Comment