تمہارا درد اگر میرے آس پاس رہے دل ِدریدہ پہ مرہم کا اک لباس رہے |
|
وہ سنگ رکھتا ہے اپنے جگر میں خوئے گلاب تمہارے دستِ حنائی کی جس میں باس رہے |
|
زباں پہ شام و سحر اک انا کا پہرہ ہے لبوں پہ کیسے کوئی حرَفِ التماس رہے |
|
ہمیں تو نشہء تابِ نظر بہت تھا مگر اُٹھی وہ آنکھ تو قائم نہ پھر حواس رہے |
|
حُدودِ شوق کا وعدہ ہے ان سے آج کی شب زباں کا اے دلِ سرکش تجھے بھی پاس رہے |
|
وہ کیا ملا کہ کوئی بات ہی نہ ہوپائی نہ اس کے ہوش، نہ قائم مرے حواس رہے |
|
مذاق لگتی ہیں سب شہرتیں مجھے اشعؔر مکینِ دل ہی اگر میرا ناشناس رہے |
|
کلیات منیف اشعر - رختِ زندگی میں خوش آمدید
Monday, May 4, 2009
تمہارا درد اگر میرے آس پاس رہے
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment