
| بس ایک آرزو دل سے لگائے پھرتا ہوں تمہارے خواب کی گٹھری اُٹھائے پھرتا ہوں |
|
|
| زمانہ تاکہ نہ پہنچے مسائلِ دل تک لبوں پہ اپنے تبسّم سجائے پھرتا ہوں |
|
|
| اسی لیے کہ کوئی دل کو دشت کہہ نہ سکے تمہاری یادوں کی دنیا بسائے پھرتا ہوں |
|
|
| کسی کے پاس بھی درماں نہیں ہے تیرے سوا مرض یہ کیسا میں جاں سے لگائے پھرتا ہوں |
|
|
| نہ پوچھو کس طرح دنیا کی تیز نظروں سے میں اپنے دامنِ تر کو چھپائے پھرتا ہوں |
|
|
| بس اس لیے کہ ترا قصّہ معتبر ہوجائے کہاں میں اپنی کہانی سنائے پھرتا ہوں |
|
|
| تمہاری خوشبو سے دنیا مہک نہ جائے کہیں تمہارے ساتھ کی یادیں بھُلائے پھرتا ہوں |
|
|
| یہ حق تمہارا ہے جاناں ملو تو نذر کروں تمہارے نام جو آنسو بچائے پھرتا ہوں |
|
|
| میں بے وفاؤں کے صحرا میں ہر جگہ اشعؔر تری وفاؤں کی فصلیں اُگائے پھرتا ہوں |
|
|
No comments:
Post a Comment