علاجِ ظلمتِ شب کچھ تو اب کیا جائے ہمارے شہر میں کوئی دیا جلا جائے |
یہ تجھ پہ مرتا ہے کمبخت کیا کیا جائے ترے سوا دلِ خود سر کو کیا دیا جائے |
بس ایک چاکِ گریباں کی فکر ہے سب کو ہمارا چاکِ جگر بھی کبھی سیا جائے |
ہوائیں لاکھ دھکیلیں مجھے عدم کی طرف بلاوا آئے نہ جب تک، مری بلا جائے |
بچا رہوں گا میں ذلّت کی دھوپ سے جب تک نہ میرے سر سے ترے سائے کی ردا جائے |
ہمارے شہر میں تنہائی کی کمی تو نہیں تو کس لحاظ سے پھر دشت میں رہا جائے |
جہاں جہاں سے پُکارا گیا ہوں میں اشعؔر میں چاہتا ہوں وہاں تک مری صدا جائے |
کلیات منیف اشعر - رختِ زندگی میں خوش آمدید
Sunday, April 26, 2009
علاجِ ظلمتِ شب کچھ تو اب کیا جائے
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment