
| اب اس سے ملتے رہنا، ہیں تو رُسوائی کی باتیں مگر آساں نہیں ہوتی ہیں پسپائی کی باتیں |
|
|
| خِرَد مندوں سے اچھی ہیں یہ سودائی کی باتیں اُسے قائل نہیں کرپائیں دانائی کی باتیں |
|
|
| یہ بات اپنی جگہ، اچھا ہوا، ہم لوٹ آئے بڑی دلچسپ تھیں لیکن، اس ہرجائی کی باتیں |
|
|
| نہ اب تک ڈھاسکے وہ اپنی دیوارِ انا کو نہ ہم کو آسکیں اب تک جبیں سائی کی باتیں |
|
|
| کوئی پھر کیا کرے خود کو بھلا کیسے سنبھالے بہت بے خود بنادیتی ہیں انگڑائی کی باتیں |
|
|
| عجب ہوتی ہے اکثر دفعتاً یادوں کی بارش بپا اک شور کردیتی ہیں تنہائی کی باتیں |
|
|
| پڑے ہے درد کی حالت میں پیہم مسکرانا کوئی آسان ہوتی ہیں شِکیبائی کی باتیں |
|
|
| وہ قصّے بھی بہت معتبر ہوتے ہیں اشعؔر کبھی سن کر تو دیکھو، تم تماشائی کی باتیں |
|
|
No comments:
Post a Comment