ہمارا دکھ کوئی سمجھے، سوال ہی کم ہے ہمارے زخموں کی شاید مثال ہی کم ہے |
|
لہو بہانا مری آنکھیں چھوڑ کیسے دیں بھرا ہے زخم نہ اس کا خیال ہی کم ہے |
|
یونہی نہیں ہے کمی قلبِ مطمئن کی فَزوں نظر کے سامنے فکرِ مآل ہی کم ہے |
|
کسی کا دل مری باتوں سے ٹوٹ جائے کبھی مرے سُخن میں یہ حُسنِ کمال ہی کم ہے |
|
بس اک یہی تو شکایت رہی ہے ان کو سدا کہ آئینوں میں ہمارے جمال ہی کم ہے |
|
یہ ایک وقتی تأثّر ہے اور کچھ بھی نہیں کہ ظالموں کا جہاں میں زوال ہی کم ہے |
|
اگرچہ زخم بھی گہرا ہے درد بھی لیکن شکایتوں کی خدا سے مجال ہی کم ہے |
|
میانِ خوف و رجا ہی رکھو قیام اشعؔر نہ کم ہے رحم نہ ان کا جلال ہی کم ہے |
|
کلیات منیف اشعر - رختِ زندگی میں خوش آمدید
Saturday, May 2, 2009
ہمارا دکھ کوئی سمجھے، سوال ہی کم ہے
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment