
| ہمارا دکھ کوئی سمجھے، سوال ہی کم ہے ہمارے زخموں کی شاید مثال ہی کم ہے |
| |
| لہو بہانا مری آنکھیں چھوڑ کیسے دیں بھرا ہے زخم نہ اس کا خیال ہی کم ہے |
| |
| یونہی نہیں ہے کمی قلبِ مطمئن کی فَزوں نظر کے سامنے فکرِ مآل ہی کم ہے |
| |
| کسی کا دل مری باتوں سے ٹوٹ جائے کبھی مرے سُخن میں یہ حُسنِ کمال ہی کم ہے |
| |
| بس اک یہی تو شکایت رہی ہے ان کو سدا کہ آئینوں میں ہمارے جمال ہی کم ہے |
| |
| یہ ایک وقتی تأثّر ہے اور کچھ بھی نہیں کہ ظالموں کا جہاں میں زوال ہی کم ہے |
| |
| اگرچہ زخم بھی گہرا ہے درد بھی لیکن شکایتوں کی خدا سے مجال ہی کم ہے |
| |
| میانِ خوف و رجا ہی رکھو قیام اشعؔر نہ کم ہے رحم نہ ان کا جلال ہی کم ہے |
| |
No comments:
Post a Comment