بہت ڈرتا ہوں فطرت پر غزل کیسے کہوں میں تباہی اور ہلاکت پر غزل کیسے کہوں میں |
|
جو آنکھوں تک پہنچنے ہی نہیں دے خوں کے آنسو دلوں کی اس شقاوت پر غزل کیسے کہوں میں |
|
دکھاتے ہو مجھے ہر سَمت جب زہریلے منظر تمہیں سوچو حلاوت پر غزل کیسے کہوں میں |
|
عنایت ہےکہ جو بے سَر تھا، ہے دستار والا مگر ایسی عنایت پر غزل کیسے کہوں میں |
|
کہاں چھوڑا ہے تم نےکوئی گوشہ میرؔ صاحب کسی بھی یاس و حسرت پر غزل کیسے کہوںمیں |
|
کہا لوگوں نے احوالِ وطن پر میں بھی لکھوں پر اس گندی سیاست پر غزل کیسے کہوں میں |
|
جو اپنے ساتھ لےجاتی ہے کچھ معصوم جانیں بتاؤ ایسی دہشت پر غزل کیسے کہوں میں |
|
تری بے مہریاں وعدہ خلافی اور تغافل ان آیاتِ مُحبّت پر غزل کیسے کہوں میں |
|
جب آمد ہو غزل کہنا بہت آساں ہے اشعؔر مگر تیری ضرورت پر غزل کیسے کہوں میں |
|
کلیات منیف اشعر - رختِ زندگی میں خوش آمدید
Saturday, May 2, 2009
بہت ڈرتا ہوں فطرت پر غزل کیسے کہوں میں
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment