
| حیات گو کہ غریبی میں بار گزری ہے مگر بفضلِ خدا پُروقار گزری ہے |
|
|
| شعورِ ذات کی منزل چراغِ رہ کی طرح رہِ حیات میں حسنِ شعار گزری ہے |
|
|
| یہ کیا عجب ہے کہ جس سے ہیں سارے دکھ منسوب اسی کی یاد سدا چارہ کار گزری ہے |
|
|
| رہا ہے وعدہ شکن وہ سدا، مگر اپنی تمام عمر پئے اعتبار گزری ہے |
|
|
| میں اب بھی عالمِ تنہائی کے حصار میں ہوں اگرچہ وصل کی رُت بار بار گزری ہے |
|
|
| وہ شخص سب کا تعاقب کرے ہے اور اس کی اک اپنی ذات سے کرتے فرار گزری ہے |
|
|
| لکھو گے کیا شبِ ظلمت کے باب میں اشعؔر یہاں تو صبحِ بہاراں بھی تار گزری ہے |
|
|
No comments:
Post a Comment