کون سا لمحہ تھا جب وہ راحتِ جاں ہوگئے ہم نہ جانے کس ادا پر ان کی قرباں ہوگئے |
|
مجھ کو رسوا کرنے والی وحشتوں کا شکریہ جن کے دم سے امتحانِ عشق آساں ہوگئے |
|
جن سے امّید ضرر تھی وہ عدو نظروں میں تھے بے خبر تھا دوستوں سے، دشمنِ جاں ہوگئے |
|
تذکرہ شعر و سُخن کا یوں ہے بس اپنے یہاں جب بھی آمد ہوگئی کارِ نمایاں ہوگئے |
|
جن سےکوئی خواب وابستہ نہ تھا میرا کبھی زندگی میں دفعتاً آکر رگِ جاں ہوگئے |
|
بھول جاتا ہے زمانہ جلد ہر طوفاں کے بعد وجہِ قہرِ آسماں قوموں کے عِصیان ہوگئے |
|
دونوں ہی شرمندہ ہیں ہم اک انا کی ذات سے کتنے موسم زندگی کے نذرِ ہِجَراں ہوگئے |
|
تاکہ محفل آپ کی رنجیدۂ خاطر نہ ہو اشک میرے شاملِ جشنِ چراغاں ہوگئے |
|
یاد آتی ہیں ہمیں صحرا کی خود نایابیاں شہرِ یخ بستہ میں کیا آئے کہ ارزاں ہوگئے |
|
زندگی میں آج میری کتنے ہی خوابوں کے بعد خیر سے شرمندۂ تعبیر ارماں ہوگئے |
|
مسند و دستار والے مضمحل رہتے تھے سب اشعؔرِ عاجز کا اُٹھنا تھا کہ فرحاں ہوگئے |
|
کلیات منیف اشعر - رختِ زندگی میں خوش آمدید
Saturday, May 2, 2009
کون سا لمحہ تھا جب وہ راحتِ جاں ہوگئے
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment