کارواں کو رہبروں سے بدگماں رکھا گیا لُوٹنے والوں کو میرِ کارواں رکھا گیا |
|
درمیانِ زندگی و موت ہے بس اک فراق اور سزا کا کاٹنا بھی قرضِ جاں رکھا گیا |
|
درد کی شدّت میں کھو بیٹھے تھے ہم اپنے حواس پھر نہ ہم سے رازِ دل کوئی نہاں رکھا گیا |
|
اس نےکیا کھویا ہے کیا پایا یہ عُقدہ کب کھلا اک حسیں ابہام در سودِ وزیاں رکھا گیا |
|
منزلیں پاتا رہا ہر گام حُسنِ ہم سفر عشق گَردِ راہ تھا سو رائیگاں رکھا گیا |
|
سنگ میلو اب بھی سنتے ہیں گلہ رکھتے ہو تم ٹھوکروں میں تھے تمہیں منزل نشاں رکھا گیا |
|
شمعِ محفل اب ہے اشعؔر آپ کے ہی روبرو یوں ذرا سی دیر ہم کو خوش گُماں رکھا گیا |
|
کلیات منیف اشعر - رختِ زندگی میں خوش آمدید
Saturday, May 2, 2009
کارواں کو رہبروں سے بدگماں رکھا گیا
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment